وَ قَالَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ وَ الۡاِیۡمَانَ لَقَدۡ لَبِثۡتُمۡ فِیۡ کِتٰبِ اللّٰہِ اِلٰی یَوۡمِ الۡبَعۡثِ ۫ فَہٰذَا یَوۡمُ الۡبَعۡثِ وَ لٰکِنَّکُمۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ﴿۵۶﴾

۵۶۔ اور جنہیں علم اور ایمان دیا گیا تھا وہ کہیں گے: نوشتہ خدا کے مطابق یقینا تم قیامت تک رہے ہو اور یہی قیامت کا دن ہے لیکن تم جانتے نہیں تھے۔

55۔56 اہل علم و ایمان دنیاوی زندگی کے مراحل سے آگاہ ہوتے ہیں کہ یہ ایک سفر ہے اور منزل ان کے سامنے ہوتی ہے۔ اسی طرح وہ مرنے کے بعد کے مراحل سے بھی آگاہ ہوتے ہیں، جبکہ جو لوگ علم و ایمان سے محروم ہیں، وہ اس زندگی کے مراحل اور منازل سے بے خبر ہوتے ہیں اور مرنے کے بعد کے مراحل سے بھی بے خبر ہوتے ہیں۔ قیامت برپا ہوتے ہی دنیاوی زندگی جو اس نے عیش و عشرت اور لاپرواہی میں گزاری ہے، ایک گھڑی سے زیادہ معلوم نہیں ہو گی۔

ان آیات سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جن کو حیات برزخی حاصل نہیں تھی، وہ یہ خیال کریں گے کہ مرنے کے بعد فوراً اٹھائے گئے ہیں۔ جیسا کہ سورہ یس میں فرمایا: مَنۡۢ بَعَثَنَا مِنۡ مَّرۡقَدِنَا ہم کو ہماری خواب گاہوں سے کس نے اٹھایا۔

جبکہ اہل علم و ایمان کو حیات برزخی حاصل تھی۔ ان کو اس مدت کا اندازہ ہے جو ان کی موت اور قیامت کے درمیان گزری ہے۔ اس لیے یہ اہل علم و ایمان دوسروں سے کہیں گے: وَ لٰکِنَّکُمۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ ۔ لیکن تم جانتے نہیں تھے۔