وَ عَادًا وَّ ثَمُوۡدَا۠ وَ قَدۡ تَّبَیَّنَ لَکُمۡ مِّنۡ مَّسٰکِنِہِمۡ ۟ وَ زَیَّنَ لَہُمُ الشَّیۡطٰنُ اَعۡمَالَہُمۡ فَصَدَّہُمۡ عَنِ السَّبِیۡلِ وَ کَانُوۡا مُسۡتَبۡصِرِیۡنَ ﴿ۙ۳۸﴾

۳۸۔ اور عاد و ثمود کو (بھی ہلاک کیا) اور بتحقیق ان کے مکانوں سے تمہارے لیے یہ بات واضح ہو گئی اور شیطان نے ان کے لیے ان کے اعمال کو آراستہ کیا اور انہیں راہ (راست) سے روکے رکھا حالانکہ وہ ہوش مند تھے۔

38۔ وَ کَانُوۡا مُسۡتَبۡصِرِیۡنَ : وہ ہوش مند تھے۔ اس جملے کی دو تفسیریں ہیں: ایک یہ کہ یہ قوم راہ راست سے منحرف ہونے سے پہلے دین فطرت دین توحید پر تھی۔ دوسری تفسیر یہ کی جاتی ہے کہ یہ لوگ شیطان کے ہتھے اس لیے نہیں چڑھے کہ یہ نادان لوگ تھے، بلکہ یہ خاصے عقل و خرد کے مالک تھے۔

پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ آج جن مقامات کو احقاف، یمن اور حضر موت کہتے ہیں، یہاں قوم عاد آباد تھی اور شمال حجاز میں رابغ سے لے کر عقبہ تک اور خیبر سے لے کر تبوک تک کے تمام علاقوں میں قوم ثمود آباد تھی۔