ۣالَّذِیۡ لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ لَمۡ یَتَّخِذۡ وَلَدًا وَّ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ شَرِیۡکٌ فِی الۡمُلۡکِ وَ خَلَقَ کُلَّ شَیۡءٍ فَقَدَّرَہٗ تَقۡدِیۡرًا﴿۲﴾

۲۔ جس کے لیے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے اور جس نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا اور جس کی بادشاہی میں کوئی شریک نہیں ہے اور جس نے ہر چیز کو خلق فرمایا پھر ہر ایک کو اپنے اندازے میں مقدر فرمایا۔

2۔ آسمانوں اور زمین کی سلطنت صرف اللہ کے پاس ہے۔ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ شَرِیۡکٌ فِی الۡمُلۡکِ اس سلطنت میں کوئی شریک نہیں ہے۔ جب کہ مشرکین تدبیر و سلطنت میں دوسروں کو شریک بناتے تھے کہ خلق تو خدا نے کیا ہے لیکن خلق کے بعد تدبیر کے اختیارات غیر اللہ کے پاس ہیں۔

وَ خَلَقَ کُلَّ شَیۡءٍ فَقَدَّرَہٗ تَقۡدِیۡرًا : ہر چیز کی تخلیق اور تقدیر اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ تقدیر، تخلیق سے جدا عمل نہیں ہے۔ اسی طرح تدبیر تقدیر سے جدا عمل نہیں ہے۔

فَقَدَّرَہٗ تَقۡدِیۡرًا : اس جملے کا حق ادا کرنے والا ترجمہ مشکل ہے۔ ہر چیز کی تخلیق کے بعد اس کی بقا و ارتقا کا پیمانہ متعین کیا۔ یعنی اس کی تخلیق کے وقت ہی اس کی بقا و ارتقا کے لیے ضروری ہدایات اس میں ودیعت فرمائیں۔ ہر ایک کی بقا و ارتقا کے علل و اسباب کا تعین فرمایا اور فیزیکلی قانون وضع فرمایا۔ جس کو تقدیر کہتے ہیں۔ اس طرح ہر چیز کے لیے ایک تقدیر متعین ہے۔ یعنی ہر چیز پہلے سے تنظیم شدہ قانون کے تحت چل رہی ہے۔