اِنَّ الَّذِیۡنَ جَآءُوۡ بِالۡاِفۡکِ عُصۡبَۃٌ مِّنۡکُمۡ ؕ لَا تَحۡسَبُوۡہُ شَرًّا لَّکُمۡ ؕ بَلۡ ہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ ؕ لِکُلِّ امۡرِیًٴ مِّنۡہُمۡ مَّا اکۡتَسَبَ مِنَ الۡاِثۡمِ ۚ وَ الَّذِیۡ تَوَلّٰی کِبۡرَہٗ مِنۡہُمۡ لَہٗ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ﴿۱۱﴾

۱۱۔ جو لوگ بہتان باندھ لائے وہ یقینا تمہارا ہی ایک دھڑا ہے، اسے اپنے لیے برا نہ سمجھنا بلکہ وہ تمہارے لیے اچھا ہے، ان میں سے جس نے جتنا گناہ کمایا اس کے لیے اتنا ہی حصہ ہے اور ان میں سے جس نے بڑا حصہ لیا ہے اس کے لیے بڑا عذاب ہے۔

11۔ رسول اللہ ﷺ غزوہ بنی مصطلق سے واپس تشریف لا رہے تھے۔ اس غزوہ میں حضرت ام المومنین ہمراہ تھیں جو قافلہ سے پیچھے رہ گئیں۔ صفوان بن معطل نے، جو قافلے سے پیچھے چل رہے تھے، انہیں دیکھا اور اپنے اونٹ پر بٹھا کر قافلہ تک پہنچایا۔ اس واقعہ کو منافقین کے سرکردہ عبد اللہ بن ابی اور کچھ سادہ لوح مسلمانوں نے اچھالا اور حضرت ام المومنین کا دامن داغدار کرنے کی کوشش کی۔ اس الزام کو اللہ تعالیٰ نے افک سے تعبیر فرمایا۔ اِفۡکِ بات کو الٹ دینے اور حقیقت کے خلاف کچھ کہ دینے کے معنوں میں ہے۔ قرآن میں اس لفظ کا استعمال بذات خود اللہ کی طرف سے اس الزام کی تردید ہے۔ بعد کی چند آیات بھی اسی الزام کی تردید میں نازل ہوئیں۔

واضح رہے کہ ان آیات کے نزول سے قبل یہ الزام گناہ کبیرہ تھا، لیکن ان آیات کے نزول کے بعد بھی اگر کوئی یہ الزام عائد کرے تو اس سے اللہ کی تکذیب لازم آتی ہے۔(معاذ اللّٰہ)

عُصۡبَۃٌ : گروہ کو کہتے ہیں جو باہم مربوط ہوتا ہے۔ بقول بعض دس سے چالیس افراد پر مشتمل ہو تو عُصۡبَۃٌ کہا جاتا ہے۔

لَا تَحۡسَبُوۡہُ شَرًّا لَّکُمۡ : برا اس لیے نہیں سمجھنا چاہیے کہ اس قسم کے واقعات سے کچھ لوگوں کی دل کی خباثت فاش ہو جاتی ہے۔ وہ لوگ اسلامی معاشرے میں مزید فساد نہیں پھیلا سکتے، کیونکہ وہ اس واقعہ سے پہچانے گئے ہوتے ہیں۔

یہ ام المومنین کون تھیں؟ غیر امامیہ روایات میں یہ حضرت عائشہ تھیں۔ امامیہ کی روایات میں یہ حضرت ماریہ قبطیہ تھیں۔ صاحب تفسیر المیزان کو دونوں روایات میں تأمل ہے۔