وَ اسۡتَفۡزِزۡ مَنِ اسۡتَطَعۡتَ مِنۡہُمۡ بِصَوۡتِکَ وَ اَجۡلِبۡ عَلَیۡہِمۡ بِخَیۡلِکَ وَ رَجِلِکَ وَ شَارِکۡہُمۡ فِی الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَوۡلَادِ وَ عِدۡہُمۡ ؕ وَ مَا یَعِدُہُمُ الشَّیۡطٰنُ اِلَّا غُرُوۡرًا﴿۶۴﴾
۶۴۔ اور ان میں سے تو جس جس کو اپنی آواز سے لغزش سے دوچار کر سکتا ہے کر اور اپنے سواروں اور پیادوں کے ساتھ ان پر چڑھائی کر دے اور ان کے اموال اور اولاد میں ان کا شریک بن جا اور انہیں (جھوٹے) وعدوں میں لگا رکھ اور شیطان سوائے دھوکے کے انہیں اور کوئی وعدہ نہیں دیتا۔
64۔ ایک جنگ ایک معرکہ جس میں ایک طرف شیطان اپنی سوار اور پیادہ فوج اور ساز و آواز کے ساتھ اولاد آدم پر حملہ آور ہے۔ اس حملے میں شیطان درج ذیل وسائل حرب بروئے کار لاتا ہے: 1۔ آواز: حق کے مقابلے میں، ہر اس آواز کے ذریعے جس سے انسانی عقل مغلوب ہو جاتی ہے، ہر اٹھنے والی آواز کو جاذب، پرکشش بنانا اور اس پر آج کے ذرائع ابلاغ شاہد ہیں کہ سمعی ذرائع سے شیاطین کس قدر گمراہ کن افکار پھلاتے ہیں۔ 2۔ طاقت کا استعمال: وہ اپنے کارندوں کے ذریعے لوگوں کے عقل و حواس پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ بالکل ایک گرم معرکہ کی طرح جس میں دشمن اپنے سوار اور پیدل فوج دونوں کو جھونک دیتا ہے۔ 3۔ اقتصادی حربے: اصولی طور پر انسان اپنے فائدے کے لیے مال کماتا ہے اور اولاد پالتا ہے، مگر جب انسان شیطان کے حملے کی زد میں آتا ہے تو اس سے شیطان زیادہ فائدہ اٹھاتا ہے۔ چنانچہ آج کے شیطانی معاشروں میں مال کا اکثر حصہ غیر انسانی امور پر خرچ ہوتا ہے۔
4۔ نفسیاتی حربے: دلفریب وعدوں کے ذریعے انسان کو فریب دینا شیاطین کا خطرناک ترین ہتھیار ہے۔ وہ انسان سے دولت مندی جاہ و ریاست اور بالا دستی کے پرکشش وعدے کرتے ہیں اور انسان سے احساس گناہ سلب کر کے گناہ کو ناچیز بنا کر پیش کرتے ہیں۔ کبھی گناہ کے بعد توبہ کا فریب دے کر گناہ کے ارتکاب پر، کبھی غلط توجیہات سے گناہ کا ارتکاب کرنے پر اکساتے ہیں۔