وَ اِنۡ مِّنۡ قَرۡیَۃٍ اِلَّا نَحۡنُ مُہۡلِکُوۡہَا قَبۡلَ یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ اَوۡ مُعَذِّبُوۡہَا عَذَابًا شَدِیۡدًا ؕ کَانَ ذٰلِکَ فِی الۡکِتٰبِ مَسۡطُوۡرًا﴿۵۸﴾

۵۸۔ اور کوئی بستی ایسی نہیں جسے ہم قیامت کے دن سے پہلے ہلاک نہ کریں یا سخت عذاب میں مبتلا نہ کریں، یہ بات کتاب (تقدیر) میں لکھی جا چکی ہے ۔

58۔ یعنی کوئی بستی ایسی نہ ہو گی جو اللہ کے عادلانہ قانون، قانون مکافات کی زد میں نہ آئے اور وہ ہلاکت یا عذاب شدید کی صورت میں وقوع پذیر ہو گا۔ ہلاکت کو عذاب کے مقابلے میں ذکر کرنے کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ہلاکت سے مراد طبعی موت ہے۔ وہ ہلاکت نہیں ہے جو عذاب کی صورت میں آتی ہے۔ اس لیے بعض کی یہ رائے ہے کہ ہلاکت (طبعی موت) اچھی بستیوں کے لیے ہے اور عذاب بری بستیوں کے لیے۔ لیکن ہو سکتا ہے ہلاکت اور عذاب مکافت عمل کی دو صورتیں ہوں۔

فِی الۡکِتٰبِ مَسۡطُوۡرًا : اس عالم ہستی کو اللہ تعالیٰ نے جس قانون اور دستور پر قائم کر رکھا ہے اس دستور کو لَوۡحٍ مَّحۡفُوۡظٍ ، کبھی کِتٰبٍ مُّبِیۡنٍ کہا ہے۔ یعنی اس کائنات میں جو کچھ رونما ہوتا ہے وہ اس قانون اور اس تقدیر کے مطابق ہوتا ہے جس پر اِس کائنات کا نظام قائم ہے، جو اللہ کے اس حتمی فیصلے سے عبارت ہے کہ ہر علت پر معلول کا ترتب ضروری ہے