وَ لَا تَقۡتُلُوا النَّفۡسَ الَّتِیۡ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالۡحَقِّ ؕ وَ مَنۡ قُتِلَ مَظۡلُوۡمًا فَقَدۡ جَعَلۡنَا لِوَلِیِّہٖ سُلۡطٰنًا فَلَا یُسۡرِفۡ فِّی الۡقَتۡلِ ؕ اِنَّہٗ کَانَ مَنۡصُوۡرًا﴿۳۳﴾

۳۳۔ اور جس جان کا مارنا اللہ نے حرام کیا ہے تم اسے قتل نہ کرو مگر حق کے ساتھ اور جو شخص مظلوم مارا جائے تو ہم نے اس کے ولی کو(قصاص کا) اختیار دیا ہے، پس اسے بھی قتل میں حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے، یقینا نصرت اسی کی ہو گی۔

33۔ اللہ کی دی ہوئی زندگی کا ختم کرنا بڑا جرم ہے۔ جو شخص ناحق مارا جائے تو اس کے وارث کو اختیار حاصل ہے کہ وہ قصاص لے، مگر خود نہیں بلکہ حاکم شرع کے ذریعے یا دیت لے کر قصاص معاف کرے۔ حکومت کو قصاص لینے یا معاف کرنے کا حق نہیں ہے اور قتل میں اسراف نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وارث کو صرف قاتل سے قصاص لینے کا حق ہے، دیگر عزیزوں سے نہیں۔ ایک کے بدلے صرف ایک مارا جائے گا، زیادہ نہیں۔ مگر انسانی حقوق کا پرچار کرنے والے اپنی قوم کے ایک فرد کا قصاص دوسری پوری قوم سے لیتے ہیں۔