وَ لَا تَقۡتُلُوۡۤا اَوۡلَادَکُمۡ خَشۡیَۃَ اِمۡلَاقٍ ؕ نَحۡنُ نَرۡزُقُہُمۡ وَ اِیَّاکُمۡ ؕ اِنَّ قَتۡلَہُمۡ کَانَ خِطۡاً کَبِیۡرًا﴿۳۱﴾

۳۱۔ اور تم اپنی اولاد کو تنگ دستی کے خوف سے قتل نہ کیا کرو، ہم انہیں رزق دیں گے اور تمہیں بھی، ان کا قتل یقینا بہت بڑا گناہ ہے۔

31۔ یہ آیت واضح طور پر ان اقتصادی اصولوں کو بے بنیاد قرار دے رہی ہے جن کے تحت قدیم زمانے سے آج تک نسل کی افزائش کو اقتصادی بدحالی کا سبب قرار دیا جاتا ہے۔ محسوس پرست لوگ ہمیشہ محسوسات کو پیمانہ بناتے ہیں۔ وہ اس بات کی توجیہ کرنے سے قاصر ہیں کہ ہر متنفس اپنا رزق لے کر آتا ہے۔ وہ اس نکتے کو سمجھ نہیں سکتے کہ گھر میں مہمان زیادہ آنے سے اور سخاوت کرنے سے رزق میں فراوانی کیسے آتی ہے اور آبادی بڑھنے سے معاشی وسائل میں اضافہ کیسے ہوتا ہے؟ اگر وہ اپنے محسوس پیمانے ہی کو معیار قرار دیں تو بھی یہ بات محسوس میں آئی ہوئی ہے کہ مختلف ملکوں کی آبادی میں جتنا اضافہ ہوا ہے، اس سے کہیں زیادہ ان کے معاشی ذرائع میں اضافہ ہوا ہے۔ ایسے لوگوں کو افزائش نسل روکنے کی بجائے قدرت کی فیاضی پر توجہ دینا چاہیے، جو سورج کی صرف ایک منٹ کی تابش سے کرہ ارض کے تمام بسنے والوں کے لیے ایک سال کی ضرورت کی انرجی فراہم کرتی ہے، جس کی عطاکردہ دماغی صلاحیت میں سے صرف چند فیصد استعمال میں لائی جاتی ہے۔ جس کی وسیع و عریض زمین میں سے صرف کچھ حصے سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ جس کے عنایت کردہ سمندر اور بارش کے پانی کے کچھ فیصد سے استفادہ کیا جاتا ہے۔