قَالَتۡ رُسُلُہُمۡ اَفِی اللّٰہِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ یَدۡعُوۡکُمۡ لِیَغۡفِرَ لَکُمۡ مِّنۡ ذُنُوۡبِکُمۡ وَ یُؤَخِّرَکُمۡ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی ؕ قَالُوۡۤا اِنۡ اَنۡتُمۡ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُنَا ؕ تُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ تَصُدُّوۡنَا عَمَّا کَانَ یَعۡبُدُ اٰبَآؤُنَا فَاۡتُوۡنَا بِسُلۡطٰنٍ مُّبِیۡنٍ﴿۱۰﴾

۱۰۔ ان کے رسولوں نے کہا: کیا (تمہیں) اس اللہ کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے؟ وہ تمہیں اس لیے دعوت دیتا ہے تاکہ تمہارے گناہ بخش دے اور ایک معین مدت تک تمہیں مہلت دے، وہ کہنے لگے: تم تو ہم جیسے بشر ہو تم ہمیں ان معبودوں سے روکنا چاہتے ہو جن کی ہمارے باپ دادا پوجا کرتے تھے، پس اگر کوئی کھلی دلیل ہے تو ہمارے پاس لے آؤ۔

10۔ دعوت انبیاء درحقیقت اللہ کی رحمت کی طرف دعوت ہے: یَدۡعُوۡکُمۡ لِیَغۡفِرَ لَکُمۡ مِّنۡ ذُنُوۡبِکُمۡ (ابراہیم : 10) وہ تمہیں اس لیے دعوت دیتا ہے تاکہ وہ تمہارے گناہ بخش دے۔

اللہ کے ہاں مدت کا تعین قوموں کے اوصاف کے ساتھ مشروط ہوتا ہے۔ ایک اچھی قوم اگر اپنے اندر بگاڑ پیدا کرے تو اس کی مہلت عمل اٹھا دی جاتی ہے اور اسے تباہ کر دیا جاتا ہے اور ایک بگڑی ہوئی قوم اگر اپنے برے اوصاف کو اچھے اوصاف میں بدل لے تو اس کی مہلت عمل بڑھا دی جاتی ہے۔ (تفہیم القرآن)

بدا یہی ہے جس کے تمام مفسرین قائل ہیں۔