وَ یَقُوۡلُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَسۡتَ مُرۡسَلًا ؕ قُلۡ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًۢا بَیۡنِیۡ وَ بَیۡنَکُمۡ ۙ وَ مَنۡ عِنۡدَہٗ عِلۡمُ الۡکِتٰبِ﴿٪۴۳﴾

۴۳۔ اور کافر کہتے ہیں: کہ آپ رسول نہیں ہیں، کہدیجئے: میرے اور تمہارے درمیان گواہی کے لیے اللہ اور وہ جس کے پاس کتاب کا علم ہے کافی ہیں۔

43۔ جب کافروں کا یہ مطالبہ کہ قرآن کے علاوہ کوئی معجزہ دکھاؤ، مسترد ہو گیا تو کہنے لگے: پھر تو آپ ﷺ پیغمبر نہیں ہیں۔ جواب میں فرمایا: میرے حق میں گواہی کے لیے اللہ کافی ہے جس نے ایک معجزانہ کلام میری رسالت کی گواہی کے لیے نازل فرمایا اور وہ ذات بھی گواہی کے لیے کافی ہے جس کے پاس عِلۡمُ الۡکِتٰبِ ہے۔

شواہد التنزیل حسکانی، مناقب مغازلی، تفسیر ثعلبی، ابن بطریق کی کتاب العمدۃ میں آیا ہے کہ مَنۡ عِنۡدَہٗ عِلۡمُ الۡکِتٰبِ سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں۔

آلوسی اپنی تفسیر روح المعانی میں محمد بن الحنفیہ اور حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی اس روایت کا ذکر کرتے ہیں کہ اس آیت میں مَنۡ عِنۡدَہٗ عِلۡمُ الۡکِتٰبِ سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں۔ پھر کہتے ہیں: مجھے اپنی زندگی کی قسم! علی علیہ السلام کے پاس علم الکتاب ہے۔ لیکن اس آیت سے علی علیہ السلام مراد نہیں ہیں۔