مَثَلُ الۡجَنَّۃِ الَّتِیۡ وُعِدَ الۡمُتَّقُوۡنَ ؕ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ؕ اُکُلُہَا دَآئِمٌ وَّ ظِلُّہَا ؕ تِلۡکَ عُقۡبَی الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا ٭ۖ وَّ عُقۡبَی الۡکٰفِرِیۡنَ النَّارُ﴿۳۵﴾

۳۵۔ اہل تقویٰ سے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی شان ایسی ہے کہ اس کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اس کے میوے اور اس کا سایہ دائمی ہیں، یہ ہے اہل تقویٰ کی عاقبت اور کافروں کا انجام تو آتش ہے۔

35۔اس آیت میں اہل کفر کے مقابلے میں اہل ایمان کا نہیں بلکہ اہل تقویٰ کا ذکر ہے۔ اس میں یہ لطیف اشارہ ملتا ہے کہ نیک عاقبت کے لیے صرف ایمان کافی نہیں بلکہ عمل صالح اور تقویٰ کی بھی ضرورت ہے۔ سایہ سے مراد ممکن ہے وہ فضا ہو جو جنت میں قائم ہے، جس میں نہ تو دھوپ کی تپش ہے، نہ سردی۔