لِلَّذِیۡنَ اسۡتَجَابُوۡا لِرَبِّہِمُ الۡحُسۡنٰی ؕؔ وَ الَّذِیۡنَ لَمۡ یَسۡتَجِیۡبُوۡا لَہٗ لَوۡ اَنَّ لَہُمۡ مَّا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا وَّ مِثۡلَہٗ مَعَہٗ لَافۡتَدَوۡا بِہٖ ؕ اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ سُوۡٓءُ الۡحِسَابِ ۬ۙ وَ مَاۡوٰىہُمۡ جَہَنَّمُ ؕ وَ بِئۡسَ الۡمِہَادُ﴿٪۱۸﴾ ۞ؒ

۱۸۔جنہوں نے اپنے رب کی دعوت مان لی ان کے لیے بہتری ہے اور جنہوں نے اس کی دعوت قبول نہیں کی وہ اگر ان سب چیزوں کے مالک بن جائیں جو زمین میں ہیں اور اتنی دولت مزید بھی ساتھ ہو تو وہ (ـآخرت میں) ان سب کو (اپنی نجات کے لیے) فدیہ دے دیں، ایسے لوگوں کا برا حساب ہو گا اور جہنم ان کا ٹھکانا ہو گا اور وہ برا ٹھکانا ہے۔

18۔ حقیقی قدروں کا مالک وہ ہے جو دعوت الٰہی کو قبول کر لے اور اصلی قیمت اس عاقبت حسنیٰ کو حاصل ہے جو اللہ کے پاس ہے۔ جو لوگ اس حسنیٰ سے محروم ہوں گے وہ اس محرومیت کی تلافی نہیں کر سکیں گے۔ اس جہاں میں قابل فہم تلافی اس طرح ہو سکتی ہے کہ ایک شخص پوری دنیا کا مالک ہو اور مزید اتنی دولت اسے میسر آئے، وہ ان سب کو فدیہ دے کر تلافی کرنا چاہے تو بھی ممکن نہ ہو گا۔ عاقبت حسنیٰ سے محروم لوگوں کا برا حساب ہو گا۔ یہاں برے حساب سے مراد انسان کی بہ نسبت برا ہو گا کہ اس سے پورا حساب لیا جائے گا۔ کسی معاملہ میں عفو اور درگزر نہ ہو گا۔ ورنہ یہ حساب اللہ کی بہ نسبت عدل و انصاف پر مبنی ہے اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ یعنی اپنے گناہوں کا حساب ان گنہگاروں کو برا لگے گا، جبکہ عاقبت حسنیٰ والوں سے ہلکا حساب لیا جائے گا۔