وَ لِلّٰہِ یَسۡجُدُ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ طَوۡعًا وَّ کَرۡہًا وَّ ظِلٰلُہُمۡ بِالۡغُدُوِّ وَ الۡاٰصَالِ ﴿ٛ۱۵﴾۩

۱۵۔ اور آسمانوں اور زمین میں بسنے والے سب بشوق یا بزور اور ان کے سائے بھی صبح و شام اللہ ہی کے لیے سر بسجود ہیں۔

15۔ علامہ طباطبائیؒ اس آیت کے ذیل میں فرماتے ہیں: وہ اجتماعی اعمال جو کسی معنوی مقاصد کے لیے انجام دیے جاتے ہیں، مثلاً صدر نشین ریاست کے لیے جھک جانا، انکسار کے لیے سجدہ کرنا اپنے آپ کو کسی جلالت کے سامنے حقیر ظاہر کرنے کے لیے، ان معانی میں جو الفاظ استعمال ہوتے ہیں، وہ جیسا کہ ان اعمال کے لیے بولے جاتے ہیں، ان مقاصد و اغراض کے لیے بھی بولے جاتے ہیں جن کے لیے یہ اعمال انجام دیے جاتے ہیں۔ چنانچہ جھک جانے کو رکوع کہتے ہیں، انکسار کو بھی رکوع کہتے ہیں اور جس طرح پیشانی زمین پر رکھنے کو سجدہ کہتے ہیں، اسی طرح کسی کی جلالت کے سامنے حقیر ظاہر کرنے کو بھی سجدہ کہتے ہیں۔ ایسا اس مناسبت کی وجہ سے ہے کہ حقیقتاً ان اعمال کی ظاہری شکل و صورت مطلوب نہیں ہوتی، بلکہ ان کے اغراض و مقاصد مطلوب ہوتے ہیں۔ اس بیان کے مطابق پیشانی زمین پر رکھنا بھی سجدہ ہے جو انسان سے صادر ہوتا ہے اور کسی کی جلالت کے سامنے اظہار حقارت کرنے کو بھی سجدہ کہتے ہیں جو دوسری موجودات سے صادر ہوتا ہے۔