حَتّٰۤی اِذَا جَآءَ اَمۡرُنَا وَ فَارَ التَّنُّوۡرُ ۙ قُلۡنَا احۡمِلۡ فِیۡہَا مِنۡ کُلٍّ زَوۡجَیۡنِ اثۡنَیۡنِ وَ اَہۡلَکَ اِلَّا مَنۡ سَبَقَ عَلَیۡہِ الۡقَوۡلُ وَ مَنۡ اٰمَنَ ؕ وَ مَاۤ اٰمَنَ مَعَہٗۤ اِلَّا قَلِیۡلٌ﴿۴۰﴾

۴۰۔ یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آگیا اور تنور (سے پانی) ابلنے لگا تو ہم نے کہا: (اے نوح!) ہر جوڑے میں سے دو دو کشتی پر سوار کرو اور اپنے گھر والوں کو بھی سوائے ان کے جن کی بات پہلے ہو چکی ہے اور ان کو بھی (سوار کرو) جو ایمان لا چکے ہیں، اگرچہ ان کے ساتھ ایمان لانے والے بہت کم تھے۔

40۔ التَّنُّوۡرُ کے بارے میں متعدد اقوال ہیں: اس سے مراد وجہ الارض روئے زمین ہے۔ لسان العرب میں آیا ہے: وَ کُلُّ مَفْجَرِ مَائٍ تَنُّور ۔ ہر پانی پھوٹنے کی جگہ کو تنور کہتے ہیں۔ مجمع البحرین میں مادہ (ت ن ر) میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس مراد سورج کا طلوع ہے۔ فَارَ التَّنُّوْرُ کا مطلب یہ ہے: جب سورج کی روشنی پھوٹ پڑی۔ یہ قول حضرت علی علیہ السلام کی طرف منسوب ہے۔ (تفسیر عیاشی) تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد روٹی کا تنور ہے۔ آج بھی مسجد کوفہ میں اس تنور کی جگہ معروف ہے۔ یہ احتمال بھی دیا جاتا ہے کہ ایک دم دار ستارے کے سمندر میں گرنے سے طوفان آیا تھا۔