مَا کَانَ لِاَہۡلِ الۡمَدِیۡنَۃِ وَ مَنۡ حَوۡلَہُمۡ مِّنَ الۡاَعۡرَابِ اَنۡ یَّتَخَلَّفُوۡا عَنۡ رَّسُوۡلِ اللّٰہِ وَ لَا یَرۡغَبُوۡا بِاَنۡفُسِہِمۡ عَنۡ نَّفۡسِہٖ ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ لَا یُصِیۡبُہُمۡ ظَمَاٌ وَّ لَا نَصَبٌ وَّ لَا مَخۡمَصَۃٌ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ لَا یَطَـُٔوۡنَ مَوۡطِئًا یَّغِیۡظُ الۡکُفَّارَ وَ لَا یَنَالُوۡنَ مِنۡ عَدُوٍّ نَّیۡلًا اِلَّا کُتِبَ لَہُمۡ بِہٖ عَمَلٌ صَالِحٌ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیۡعُ اَجۡرَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ﴿۱۲۰﴾ۙ

۱۲۰۔ اہل مدینہ اور گرد و پیش کے بدوؤں کو یہ حق حاصل ہی نہ تھا کہ وہ رسول خدا سے پیچھے رہ جائیں اور اپنی جانوں کو رسول کی جان سے زیادہ عزیز سمجھیں، یہ اس لیے کہ انہیں نہ پیاس کی تکلیف ہو گی اور نہ مشقت کی اور نہ راہ خدا میں بھوک کی اور نہ وہ کوئی ایسا قدم اٹھائیں گے جو کافروں کو ناگوار گزرے اور نہ انہیں دشمن سے کوئی گزند پہنچے گا مگر یہ کہ ان کے لیے نیک عمل لکھا جاتا ہے، بے شک اللہ نیکی کرنے والوں کا ثواب ضائع نہیں کرتا۔

120۔ نَّیۡلًا : اس کا مادہ ن و ل ہے تو عطا کے معنوں میں آتا ہے اور اگر مادہ ن ی ل ہے تو یہ گزند پہنچانے، گالی دینے کے معنوں میں آتا ہے۔ لسان العرب میں آیا ہے: و فلان ینال من عرض فلان اذا سبّہ ، اور کہتے ہیں : و ہو ینال من ما لہ و ینال من عدوّہ اذا وَتَرَہ فی مال او شیء ۔ لہٰذا اس آیت میں نَّیۡلًا گزند پہنچانے کے معنوں میں ہے۔ اس جگہ اکثر مترجمین کو اشتباہ ہوا ہے کہ نَّیۡلًا حاصل ہونے کے معنوں میں لیا ہے، جس کا آیت کے سیاق کے ساتھ کوئی ربط نہیں بنتا۔