لَقَدۡ تَّابَ اللّٰہُ عَلَی النَّبِیِّ وَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ وَ الۡاَنۡصَارِ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُ فِیۡ سَاعَۃِ الۡعُسۡرَۃِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا کَادَ یَزِیۡغُ قُلُوۡبُ فَرِیۡقٍ مِّنۡہُمۡ ثُمَّ تَابَ عَلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّہٗ بِہِمۡ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ﴿۱۱۷﴾ۙ

۱۱۷۔ بتحقیق اللہ نے نبی پر اور ان مہاجرین و انصار پر مہربانی فرمائی جنہوں نے مشکل گھڑی میں نبی کا ساتھ دیا تھا بعد اس کے کہ ان میں سے بعض کے دلوں میں کجی آنے ہی والی تھی پھر اللہ نے انہیں معاف کر دیا، بے شک وہ ان پر بڑا شفقت کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

117۔ اس آیت میں لفظ تَّابَ دوبار آیا ہے۔پہلی بار بیان فضیلت کے ساتھ ہے، لہٰذا توبہ یہاں اللہ کی طرف سے شفقت اور مہربانی کے معنوں میں ہے۔ دوسری بار ایک کوتاہی (دلوں میں کجی آنے والی تھی) کے ذکر کے بعد یہاں توبہ معافی کے مفہوم کی حامل ہے۔ لہٰذا یہ کہنا سراسر نا انصافی ہے کہ پہلی بار کی توبہ بھی معافی کے معنوں میں ہے اور (نعوذ باللہ) رسول اللہ ﷺ سے بھی لغزش سرزد ہوئی تھی۔