اِذۡ اَنۡتُمۡ بِالۡعُدۡوَۃِ الدُّنۡیَا وَ ہُمۡ بِالۡعُدۡوَۃِ الۡقُصۡوٰی وَ الرَّکۡبُ اَسۡفَلَ مِنۡکُمۡ ؕ وَ لَوۡ تَوَاعَدۡتُّمۡ لَاخۡتَلَفۡتُمۡ فِی الۡمِیۡعٰدِ ۙ وَ لٰکِنۡ لِّیَقۡضِیَ اللّٰہُ اَمۡرًا کَانَ مَفۡعُوۡلًا ۬ۙ لِّیَہۡلِکَ مَنۡ ہَلَکَ عَنۡۢ بَیِّنَۃٍ وَّ یَحۡیٰی مَنۡ حَیَّ عَنۡۢ بَیِّنَۃٍ ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ لَسَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿ۙ۴۲﴾

۴۲۔(وہ وقت یاد کرو)جب تم قریبی ناکے پر اور وہ دور کے ناکے پر تھے اور قافلہ تم سے نیچے کی جانب تھا اور اگر تم باہمی مقابلے کا عہد کر چکے ہوتے تب بھی مقررہ وقت میں تم ضرور اختلاف کرتے، لیکن (جو کچھ ہوا) وہ اس لیے تھا کہ اللہ اس امر کو پورا کرے جس کا فیصلہ کر چکا تھا تاکہ ہلاک ہونے والا واضح دلیل کے ساتھ ہلاک ہو اور زندہ رہنے والا واضح دلیل کے ساتھ زندہ رہے اور یقینا اللہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔

42۔ جنگ بدر کا نقشہ بیان ہو رہا ہے کہ لشکر اسلام قریبی محاذ پر اور دشمن نشیبی علاقے میں تھے۔ جنگی نقطہ نظر سے مسلمان نامناسب اور دشمن مناسب مقام پر تھے۔ قافلہ بھی مسلمانوں کی دسترس سے نکل چکا تھا۔ اب وہ دشمن کی کمک کر سکتا تھا۔ مسلمانوں کے لیے کسی قسم کی کمک کا امکان نہیں تھا اور مسلمان تو ایک تجارتی قافلے کا راستہ روکنے کے لیے نکلے تھے۔ غرض یہ کہ مسلمان کسی اعتبار سے بھی جنگ لڑنے کی حالت میں نہ تھے۔ 313 کا بے سر و سامان لشکر اچانک ایک ہزار پر مشتمل مسلح لشکر کے مقابلے میں آگیا۔ ایسے نہایت نامساعد حالات میں اگر جنگ کا فیصلہ پہلے کر لیا جاتا تو آپس کے اختلاف کا شکار ہو کر جنگ کرنے کی نوبت نہ آتی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں سوچنے کا موقع دیے بغیر فیصلہ کن جنگ میں جھونک دیا۔ لِّیَقۡضِیَ اللّٰہُ اَمۡرًا تاکہ اس امر کو پورا کر دے جس کا فیصلہ اللہ کر چکا ہے۔