یُجَادِلُوۡنَکَ فِی الۡحَقِّ بَعۡدَ مَا تَبَیَّنَ کَاَنَّمَا یُسَاقُوۡنَ اِلَی الۡمَوۡتِ وَ ہُمۡ یَنۡظُرُوۡنَ ؕ﴿۶﴾

۶۔ حق ظاہر ہو چکنے کے بعد یہ لوگ آپ سے حق کے بارے میں الجھ رہے تھے گویا وہ موت کی طرف ہانکے جا رہے ہوں (جس کو) وہ دیکھ رہے ہوں۔

5۔ 6 انفال کو اللہ اور رسول کی ملکیت قرار دینا بعض لوگوں کو سخت ناگوار تھا۔ اسی طرح جنگ بدر کے موقع پر لشکر قریش کے مقابلے پر جانا سخت ناگوار گزرا اور اس کو خود کشی تصور کرتے تھے۔ لیکن دونوں جگہ حق کا تقاضا یہ تھا کہ خطرے کا مقابلہ کیا جائے اور مال غنیمت اللہ اور رسول کے لیے چھوڑ دیا جائے۔

اس آیت میں نہایت شدید ترین لہجہ میں ان لوگوں کی سرزنش فرمائی جو جنگ میں شرکت کے حق میں نہ تھے اور اللہ کی طرف سے وعدہ فتح کے باوجود رسول اللہ ﷺ سے مجادلہ کرتے تھے۔ اگر یہ مجادلہ وعدہ فتح سے پہلے ہوتا تو کسی حد تک قابل فہم تھا۔ چنانچہ سرزنش و عتاب کا جو لہجہ یہاں اختیار کیا گیا ہے، وہ وہی لہجہ ہے جو مشرکین کے ساتھ اختیار کیا جاتا ہے۔ لہٰذا بعض علماء نے تو یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ یہ آیت مشرکین کے بارے میں ہے۔ صاحب المنار لکھتے ہیں: وھی بہم الیق یہ مشرکین ہی کے لیے سزاوار ہے۔ لیکن بعد میں دلیل دیتے ہیں کہ یہ مسلمانوں کے بارے میں ہی ہے۔

واقعہ یہ تھا کہ قریش کا ایک بڑا تجارتی قافلہ شام سے مکہ کو واپس جاتے ہوئے مدینہ کے قریب سے گزر رہا تھا۔ اس قافلہ کے سردار ابوسفیان کو خطرہ تھا کہ کہیں مسلمانوں کا کوئی دستہ ان پر حملہ نہ کر دے۔ چنانچہ اس نے مکہ کی طرف ایک آدمی کو روانہ کر دیا کہ وہاں سے مدد لے آئے۔ قریش مکہ نہ صرف اپنے قافلہ کو بچانے، بلکہ مسلمانوں کا خاتمہ کرنے کی نیت سے نکلے تھے۔