وَ لَقَدۡ ذَرَاۡنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیۡرًا مِّنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ ۫ۖ لَہُمۡ قُلُوۡبٌ لَّا یَفۡقَہُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اَعۡیُنٌ لَّا یُبۡصِرُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اٰذَانٌ لَّا یَسۡمَعُوۡنَ بِہَا ؕ اُولٰٓئِکَ کَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡغٰفِلُوۡنَ﴿۱۷۹﴾

۱۷۹۔ اور بتحقیق ہم نے جن و انس کی ایک کثیر تعداد کو (گویا) جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے، ان کے پاس دل تو ہیں مگر وہ ان سے سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں، وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے، یہی لوگ تو (حق سے) غافل ہیں۔

179۔ یہاں چار صورتیں قابل تصور ہیں: اول یہ کہ اللہ مومن و کافر سب کو جنت بھیج دے۔ دوم یہ کہ کافر و مومن سب کو جہنم بھیج دے۔ سوم یہ کہ مومن کو جہنم اور کافر کو جنت روانہ کرے اور چہارم یہ کہ مومن کو جنت اور کافر کو جہنم بھیج دے۔ پہلی، دوسری اور تیسری صورتیں ناممکن ہیں۔ پس چوتھی صورت ہی ممکن اور عدل و انصاف کے مطابق ضروری بھی ہے۔ اس نظام عدل کے مطابق لازم آتا ہے کہ کچھ لوگوں کو گویا جہنم ہی کے لیے پیدا کیا گیا ہے