وَ لَوۡ شِئۡنَا لَرَفَعۡنٰہُ بِہَا وَ لٰکِنَّہٗۤ اَخۡلَدَ اِلَی الۡاَرۡضِ وَ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ ۚ فَمَثَلُہٗ کَمَثَلِ الۡکَلۡبِ ۚ اِنۡ تَحۡمِلۡ عَلَیۡہِ یَلۡہَثۡ اَوۡ تَتۡرُکۡہُ یَلۡہَثۡ ؕ ذٰلِکَ مَثَلُ الۡقَوۡمِ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا ۚ فَاقۡصُصِ الۡقَصَصَ لَعَلَّہُمۡ یَتَفَکَّرُوۡنَ﴿۱۷۶﴾

۱۷۶۔اور اگر ہم چاہتے تو ان( آیات) کے طفیل اس کا رتبہ بلند کرتے لیکن اس نے تو اپنے آپ کو زمین بوس کر دیا اور اپنی نفسانی خواہش کا تابعدار بن گیا تھا، لہٰذا اس کی مثال اس کتے کی سی ہو گئی کہ اگر تم اس پر حملہ کرو تو بھی زبان لٹکائے رہے اور چھوڑ دو تو بھی زبان لٹکائے رکھے، یہ ان لوگوں کی مثال ہے جو ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں، پس آپ انہیں یہ حکایتیں سنا دیجئے کہ شاید وہ فکر کریں۔

176۔ حضرت امام رضا علیہ السلام سے منقول ہے کہ یہ آیت بلعم باعور کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اسے اسم اعظم کا علم دیا گیا تھا جس سے اس کی دعائیں قبول ہوتی تھیں۔ جب فرعون حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی طلب میں نکلا تو فرعون نے بلعم باعور سے کہا: موسیٰ علیہ السلام کے خلاف دعا کرو۔ بلعم باعور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تعاقب میں نکلنے کے لیے اپنے گدھے پر سوار ہوا لیکن گدھے نے ساتھ نہ دیا اور اسم اعظم بھی ذہن سے نکل گیا۔

مفسرین و محدثین کو اختلاف ہے کہ یہ آیت کس کے بارے میں نازل ہوئی۔ بعض کے نزدیک امیہ بن ابی صلت ہے۔ بعض کے نزدیک عامر بن نعمان راہب ہے۔ لیکن حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ اس آیت کا اصل شان نزول بلعم باعور کے بارے میں ہے۔ (مجمع البیان)۔

وَلَوْ شِئْنَا : اگر ہم چاہتے۔ اللہ کی مشیت ہے۔ اس کی مشیت حکمت و مصلحت کے تحت ہوتی ہے۔ اس شخص نے اگر اپنے علم پر عمل کیا ہوتا تو اس کا رتبہ بلند ہونا تھا۔ مگر اس نے بدعمل ہو کر اپنے آپ کو گرا دیا اور زمین بوس ہو گیا۔ جب علم رکھنے و الا خواہش پرست اور دنیا دار ہو جاتا ہے تو اس کی مثال کتے کی سی ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے مزاج اور طبیعت میں لچک نہیں رکھتا، اسے نصیحت کرو یا اسے اپنی حالت پر چھوڑ دو، وہ قابل ہدایت نہیں ہوتا۔ یعنی اس کی حرص و ہوس کی آتش بجھنے والی نہیں ہے۔