قُلۡ مَنۡ حَرَّمَ زِیۡنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیۡۤ اَخۡرَجَ لِعِبَادِہٖ وَ الطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزۡقِ ؕ قُلۡ ہِیَ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا خَالِصَۃً یَّوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّعۡلَمُوۡنَ﴿۳۲﴾

۳۲۔کہدیجئے: اللہ کی اس زینت کو جو اس نے اپنے بندوں کے لیے نکالی اور پاک رزق کو کس نے حرام کیا ؟ کہدیجئے: یہ چیزیں دنیاوی زندگی میں بھی ایمان والوں کے لیے ہیں اور قیامت کے دن تو خالصتاً انہی کے لیے ہوں گی، ہم اسی طرح اہل علم کے لیے آیات کو کھول کر بیان کرتے ہیں۔

31۔32۔ یہ بات ممکن نہیں کہ اللہ دنیا کو زیب و زینت اور پاکیزہ چیزوں سے پر کر دے پھر انہیں اپنے بندوں پر حرام کر دے۔ اللہ کی شریعت میں کوئی شق ایسی نہیں ہے جو فطرت سے متصادم ہو۔ اللہ یہ نہیں چاہتا کہ انسان بد زیبا و بد نما نظر آئے۔ اس نے انسان کو فطرتاً خوبصورت پیدا کیا ہے: لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ ۔ (تین: 4) ہم نے انسان کو بہترین انداز میں پیدا کیا ہے۔ کُلُوۡا وَ اشۡرَبُوۡا وَ لَا تُسۡرِفُوۡا ۔ اس مختصر جملے میں بتایا گیا ہے کہ کیا کھانا چاہیے اور کتنا کھانا چاہیے۔ وَ لَا تُسۡرِفُوۡا اسراف نہ کرو۔ یہ جملہ بتاتا ہے کہ کتنا کھانا چاہیے۔ کسی چیز کے حلال ہونے کی دلیل اس کی ضرورت ہے۔ لہٰذا انسانی جسم کو زندہ اور متحرک رکھنے کے لیے جتنی غذا کی ضرورت ہے، اس کا کھانا مباح اور کبھی واجب ہے۔ اگر کوئی چیز ضرورت کے اصول پر پورا نہیں اترتی تو اس کے جواز پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ ضرورت سے زیادہ خرچ کرنے کا نام اسراف ہے، لہٰذا اسراف ظلم ہے اپنی جان، اقتصادیات، اپنے ملک اور پوری انسانیت پر۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے: اِنَّمَا الْاِسْرَافُ فِیمَا اَفْسَدَ الْمَالَ وَ اَضَرَّ بِالْبَدَنِ (الکافی 4:53)اسراف یہ ہے کہ مال کا ضیاع ہو اور بدن کا ضرر۔ حضرت علی علیہ السلام ایک طویل حدیث میں فرماتے ہیں: پرہیزگار دنیادار کی دنیا میں شرکت کرتے ہیں جبکہ دنیادار پرہیزگار کی آخرت میں شرکت نہیں کرتے۔ (نور الثقلین)