بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

سورﮤ اعراف

اس سورہ کا نام الاعراف اس لیے ہے کہ آیت 46 ۔ 47 میں اعراف کا ذکر آیا ہے۔ اعراف جنت اور جہنم کے درمیان ایک اونچی جگہ کا نام ہے جہاں کچھ ہستیاں اہل جنت اور اہل جہنم دونوں کا مشاہدہ کریں گی۔

قرآنی سورتوں میں سے ہر سورہ اپنی جگہ جدا تشخص رکھتا ہے اور ہر سورہ ایک اہم خصوصیت کا حامل ہوتا ہے، جب کہ مقصد و منزل ایک ہی ہوتی ہے۔ چنانچہ سورہ انعام اور اعراف دونوں مکی ہیں دونوں ایک جیسے ماحول اور حالت میں نازل ہوئے اور دونوں سورتوں کا موضوع اور رخِ سخن بھی ایک ہے، یعنی توحید۔ اس کے باوجود سورﮤ انعام توحید پر منطقی دلائل پیش کرتا ہے جب کہ سورﮤ اعراف دعوت توحید کے تاریخی حقائق بیان کرتا ہے۔ شاید طبیعی ترتیب بھی یہی ہے کہ پہلے دعوت کی تاریخی شہادتیں پیش ہوں بعد میں اس کی معقولیت اور حقانیت پر دلیل پیش کی جائے۔ چنانچہ یہ سورہ توحید کی تاریخ کا بیان، تخلیق آدم علیہ السلام کے وقت سے شروع کرتا ہے۔ پھر آدم علیہ السلام و ابلیس کا واقعہ بیان ہوتا ہے جو اس توحیدی تاریخ کا اہم ترین واقعہ ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کے بعد اس کاروان کے دیگر اہم ارکان نوح، ہود، صالح، لوط، شعیب، موسیٰ اور ہارون علیہم السلام کا بھی ذکر ہے کہ جنہوں نے اپنے اپنے زمانے کے استعمار کو للکارتے ہوئے بے سرو سامانی کے باوجود ان شیطانی قوتوں کا اس طریقے سے ڈٹ کر مقابلہ کیا کہ آج بھی اگر کوئی ان کی سیرت پر عمل پیرا ہو تو اس زمانے کے استعمار کی ذلت و نابودی کا سبب بن سکتا ہے۔

تاریخ توحید کے بیان کے ساتھ اس کے میر کاروان حضرت محمد ﷺ کو بھی یہ بتایا جا رہا ہے کہ جو سلوک یہ مشرک قوم آپ کے ساتھ کر رہی ہے ایسا ہی سلوک آپ ﷺ سے پہلے کی قومیں اپنے رسولوں کے ساتھ کرتی رہی ہیں اور اپنے برے انجام کو پہنچ چکی ہیں۔