یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا عَلَیۡکُمۡ اَنۡفُسَکُمۡ ۚ لَا یَضُرُّکُمۡ مَّنۡ ضَلَّ اِذَا اہۡتَدَیۡتُمۡ ؕ اِلَی اللّٰہِ مَرۡجِعُکُمۡ جَمِیۡعًا فَیُنَبِّئُکُمۡ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۰۵﴾

۱۰۵۔ اے ایمان والو !اپنی فکر کرو، اگر تم خود راہ راست پر ہو تو جو گمراہ ہے وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑے گا، تم سب کو پلٹ کر اللہ کی طرف جانا ہے پھر وہ تمہیں آگاہ کرے گا جو کچھ تم کرتے رہے ہو۔

105۔ مومن کو چاہیے کہ وہ اپنی نجات کے بارے میں سوچے۔ گمراہوں کی بہتات اور گناہ کا ارتکاب کرنے والوں کی کثرت اسے متاثر نہ کرے۔ حق، حق ہوتا ہے، خواہ اس پر عمل کرنے والے تھوڑے ہی کیوں نہ ہوں اور باطل، باطل ہوتا ہے خواہ اس پر ساری دنیا عمل کرے۔رسول خدا ﷺ نے فرمایا:امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرو لیکن اگر لوگ دنیادار، حریص اور خواہش پرست ہو جائیں اور ہر شخص خود سر ہو جائے تو تم اپنی ذات کو بچاؤ اور لوگوں کو ان کے اپنے حال پر چھوڑ دو۔ (نور الثقلین) یعنی مومن کو سب کی نجات کے لیے سوچنا چاہیے اور اس پر ہر ممکن کام کرنا بھی فرض ہے لیکن اگر وہ دوسروں کی نجات کے لیے کچھ نہیں کر سکتا تو اس وقت اسے پوری توجہ اپنی ذات پر اور اپنے اہل و عیال پر مرکوز کرنی چاہیے: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا عَلَیۡکُمۡ اَنۡفُسَکُمۡ ۔ (تحریم: 6)