یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَسۡـَٔلُوۡا عَنۡ اَشۡیَآءَ اِنۡ تُبۡدَ لَکُمۡ تَسُؤۡکُمۡ ۚ وَ اِنۡ تَسۡـَٔلُوۡا عَنۡہَا حِیۡنَ یُنَزَّلُ الۡقُرۡاٰنُ تُبۡدَ لَکُمۡ ؕ عَفَا اللّٰہُ عَنۡہَا ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ حَلِیۡمٌ﴿۱۰۱﴾

۱۰۱۔ اے ایمان والو! ایسی چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو کہ اگر وہ تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں بری لگیں اور اگر ان کے بارے میں نزول قرآن کے وقت پوچھو گے تو وہ تم پر ظاہر کر دی جائیں گی (جو کچھ اب تک ہوا) اس سے اللہ نے درگزر فرمایا اور اللہ بڑا بخشنے والا، بردبار ہے۔

101۔ بعض لوگ حضور اکرم ﷺ سے ایسے سوالات کرتے تھے جن کا تعلق نہ ان کے دین سے ہوتا تھا، نہ دنیا سے۔ مثلاً ایک شخص نے آپ ﷺ سے پوچھا : میرا حقیقی باپ کون ہے؟ وغیرہ۔ فریقین کے مصادر حدیث میں آیا ہے: ان اللّٰہ افترض علیکم فرائض فلا تضیعوھا و حدلکم حدوداً فلا تعتدوھا ونھا کم عن اشیاء فلا تنتھکوھا و سکت لکم عن اشیاء ولم یدعھا نسیاناً فلا تتکلفوھا (مجمع البیان) ”اللہ نے تم پر بعض چیزیں فرض کی ہیں پس انہیں ترک نہ کرو اور کچھ حدود متعین کیے ہیں ان سے تجاوز نہ کرو، کچھ چیزوں سے منع کیا ہے ان کی خلاف ورزی نہ کرو اور کچھ چیزوں کے متعلق (عمداً) خاموشی اختیار کی ہے، بھول چوک کی وجہ سے نہیں، پس ان میں مت الجھو۔“ بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ اس حدیث کے برخلاف صرف ان چیزوں کے بارے میں زیادہ سوالات اٹھاتا ہے جن میں نہ الجھنے کا حکم ہوا ہے۔