اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤۡتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ ہُمۡ رٰکِعُوۡنَ﴿۵۵﴾

۵۵۔تمہارا ولی تو صرف اللہ اور اس کا رسول اور وہ اہل ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔

55۔ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی جب آپ علیہ السلام نے مسجد نبوی ﷺ میں حالت رکوع میں ایک سائل کو انگشتری عطا فرمائی۔ جس کے راوی یہ ائمہ و اصحاب ہیں: 1۔ ابن عباس 2۔ عمار یاسر 3۔ عبد اللہ بن سلام 4۔ سلمہ بن کہیل 5۔ انس بن مالک 6۔ عتبہ بن حکم 7۔ عبد اللہ بن ابی 8۔ ابوذر غفاری 9۔جابر بن عبداللہ انصاری 10۔عبد اللہ بن غالب 11۔ عمرو بن عاص 12۔ ابو رافع 13۔حضرت علی علیہ السلام 14۔ حضرت امام حسین علیہ السلام 15۔ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام۔ 16۔حضرت امام محمد باقر علیہ السلام 17۔امام جعفر صادق علیہ السلام۔

قاضی یحییٰ نے المواقف صفحہ 405 میں، شریف جرجانی نے شرح مواقف 8: 360 میں، سعد الدین نے شرح مواقف 5: 17 میں، علاء الدین قوشجی نے شرح تجرید میں کہا ہے کہ اس بات پر اجماع ہے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ ان سب کے مقابلے میں ابن تیمیہ کا یہ قول امانت فی النقل کے ترازو میں رکھیے! وہ کہتے ہیں: و ہذا کذب باجماع اہل العلم قد وضع بعض الکذابین حدیثاً مفتری ان ہذہ الایۃ نزلت فی علی لما تصدق بخاتمہ فی الصلوۃ و ہذا کذب باجماع اہل العلم بالنقل۔ بعض دروغ پردازوں نے ایک حدیث گھڑ لی ہے کہ یہ آیت علی کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ جبکہ اہل علم کا اجماع ہے کہ یہ جھوٹ ہے۔ ملاحظہ ہو منھاج السنۃ 2: 30) گویا محدثین مفسرین اور متکلمین کی ایک بہت بڑی جماعت اس امت میں شمار نہیں ہوتی، کیونکہ وہ آخر میں کہتے ہیں: و ان جمہور الامۃ لم تسمع بھذا الخبر۔ جمہور امت نے ایسی کوئی روایت سنی ہی نہیں۔ وَاِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُہُمْ ۔ )رعد: 5(

اس آیت کے معنی و مفہوم میں زیادہ بحث کی ضرورت نہیں ہے بلکہ صرف یہ دیکھا جانا چاہیے کہ عصر نزول قرآن میں لوگ اس آیت سے کیا سمجھتے تھے۔ چنانچہ شاعر رسول حسان بن ثابت کے اشعار آیت کے مفہوم کو سمجھانے کے لیے کافی ہیں:

فانت الذی اعطیت اذ کنت راکعاً

زکوٰۃ فدتک النفس یا خیر راکع

فانزل فیک اللّٰہ خیر ولایۃ

و بینھا فی محکمات الشرائع

یاد رہے کہ علی علیہ السلام انہی معنوں میں ولی ہیں جن معنوں میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ ولی ہیں، کیونکہ ایک ہی استعمال میں لفظ کے دو معانی مراد نہیں لیے جا سکتے۔یہاں ولایت سے حاکمیت مراد ہے جو اللہ، رسول ﷺ اور رکوع میں زکوۃ دینے والے سے مختص ہے۔ یہاں ولایت سے مراد دوستی اور نصرت و محبت نہیں، کیونکہ یہ تو تمام مومنین میں موجود ہوتی ہیں۔٭ نماز اور زکوۃ دونوں پر بیک وقت عمل صرف یہاں ہوا ہے۔