یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ابۡتَغُوۡۤا اِلَیۡہِ الۡوَسِیۡلَۃَ وَ جَاہِدُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِہٖ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ﴿۳۵﴾

۳۵۔ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف(قربت کا)ذریعہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو شاید تمہیں کامیابی نصیب ہو۔

35۔ آیت میں تقویٰ کے بعد اللہ کی قربت حاصل کرنے کے لیے وسیلہ تلاش کرنے کا حکم ہے چنانچہ خود اللہ تعالیٰ نے محمد مصطفیٰ ﷺ کو رسول بنا کر عملاً انہیں وسیلہ بنایا اور قولاً اس وسیلے کے بارے میں فرمایا: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللہُ (آل عمران: 31) چنانچہ اتباع رسول ﷺ رضائے رب کے لیے وسیلہ ہے۔ کچھ حضرات دعائے رسول ﷺ کو تو وسیلہ مانتے ہیں لیکن ذات رسول ﷺ کو وسیلہ نہیں مانتے جبکہ قرآن نے ذات رسول ﷺ کو وسیلہ امن قرار دیا ہے: وَمَا كَانَ اللہُ لِيُعَذِّبَہُمْ وَاَنْتَ فِيْہِمْ (انفال: 33) (اے محمد ﷺ !) جب تک آپ ﷺ ان کے درمیان ہیں اللہ انہیں عذاب نہیں دے گا۔