یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ لِلّٰہِ شُہَدَآءَ بِالۡقِسۡطِ ۫ وَ لَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعۡدِلُوۡا ؕ اِعۡدِلُوۡا ۟ ہُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی ۫ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ﴿۸﴾

۸۔ اے ایمان والو! اللہ کے لیے بھرپور قیام کرنے والے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہاری بے انصافی کا سبب نہ بنے، (ہر حال میں) عدل کرو! یہی تقویٰ کے قریب ترین ہے اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔

8۔ متعدد آیات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام عدل و انصاف کو بنیادی انسانی حقوق میں سے قرار دیتا ہے۔ اس میں مذہب، نسل وغیرہ کا کوئی دخل نہیں ہے۔ اس آیت میں مسلمانوں کو یہ حکم ملا ہے کہ دشمن کے ساتھ بھی عدل و انصاف سے پیش آیا کرو۔ کیونکہ جہاں وہ دشمن ہے وہاں انسان بھی ہے، بلکہ پہلے انسان اور بعد میں دشمن ہے۔ چنانچہ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے: اما اخ لک فی الدین و اما نظیرک فی الخلق ۔ (نہج البلاغۃ) یا تو وہ تمہارا برادر دینی ہے یا تجھ جیسی مخلوق۔