اِنۡ تَجۡتَنِبُوۡا کَبَآئِرَ مَا تُنۡہَوۡنَ عَنۡہُ نُکَفِّرۡ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَ نُدۡخِلۡکُمۡ مُّدۡخَلًا کَرِیۡمًا﴿۳۱﴾

۳۱۔ اگر تم ان بڑے بڑے گناہوں سے اجتناب کرو جن سے تمہیں منع کیا گیا ہے تو ہم تمہارے (چھوٹے چھوٹے) گناہ معاف کر دیں گے اور تمہیں عزت کے مقام میں داخل کر دیں گے۔

31۔ گناہ کبیرہ کی تعریف حدیث میں اس طرح آئی ہے: کل ما وعد اللّہ علیھا النار گناہ کبیرہ وہ ہے جس کے ارتکاب پر جہنم کی سزا مقرر ہو۔ جیسے قتل، زنا، عقوق والدین، جنگ سے فرار، ولایت اہل البیت علیہ السلام سے انکار وغیرہ۔ کبائر کے مقابلے میں سیئات کا ذکر ہے۔ یعنی چھوٹے گناہ جن کے بارے میں دوسری جگہ فرمایا: ان الحسنات یذھبن السیئات ۔ نیکیاں گناہوں کو مٹا دیتی ہیں۔ ان دونوں آیات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اگر بڑے گناہوں سے اجتناب کیا جائے تو چھوٹے گناہوں کو اللہ تعالیٰ معاف فرما دے گا۔ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے: اشد الذنوب ما استھان بہ صاحبہ ۔ ( نہج البلاغہ) ”بدترین گناہ وہ ہے جس کا مرتکب اسے خفیف سمجھے۔ حدیث میں آیا ہے: لا صغیرۃ مع الاصرار و لا کبیرۃ مع الاستغفار۔ یعنی گناہ کو مکرر بجا لانے کی صورت میں وہ گناہ صغیرہ نہیں رہتا اور استغفار کی صورت میں گناہ کبیرہ نہیں رہتا۔ (الکافی 2: 288)