لٰکِنِ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا رَبَّہُمۡ لَہُمۡ جَنّٰتٌ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا نُزُلًا مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ ؕ وَ مَا عِنۡدَ اللّٰہِ خَیۡرٌ لِّلۡاَبۡرَارِ﴿۱۹۸﴾ ۞ؓ

۱۹۸۔ لیکن (اس کے برعکس) جو لوگ اپنے رب کا خوف رکھتے ہیں ان کے لیے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے، یہ اللہ کی طرف سے (ان کے لیے) ضیافت ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے نیک لوگوں کے لیے وہ سب سے بہتر ہے۔

196تا 198۔ سابقہ آیت سے ذہن میں یہ خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ مومن کے حصے میں ہجرت، جلا وطنی، قتال کرنا اور قتل ہو جانا ہے، جب کہ کفار کے لیے تمام سامان عیش و نوش اور نعمتوں کی فراوانی ہے۔ کیا اللہ کا یہ نظام حق و باطل کی پہچان نہیں رکھتا کہ باطل پر کرم کرتا ہے اور حق والوں کے ساتھ نا انصافی کرتا ہے؟ اس آیت میں خطاب اگرچہ رسول ﷺ سے ہے لیکن تمام مسلمان مقصود کلام ہیں، جنہیں یہ باور کرانا ہے کہ انسان اگر دنیا و آخرت کی مجموعی زندگی کو سامنے رکھے تو یہ چند روزہ زندگی اسے حقیر نظر آئے گی اور اسے فقط وہی لوگ خوشحال نظر آئیں گے جن کی ابدی زندگی آباد و شاد ہو گی۔