الَّذِیۡنَ یَذۡکُرُوۡنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوۡدًا وَّ عَلٰی جُنُوۡبِہِمۡ وَ یَتَفَکَّرُوۡنَ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ ہٰذَا بَاطِلًا ۚ سُبۡحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴿۱۹۱﴾

۱۹۱۔ جو اٹھتے بیٹھتے اور اپنی کروٹوں پر لیٹتے ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی خلقت میں غور و فکر کرتے ہیں، (اور کہتے ہیں:) ہمارے رب! یہ سب کچھ تو نے بے حکمت نہیں بنایا، تیری ذات (ہر عبث سے) پاک ہے، پس ہمیں عذاب جہنم سے بچا لے۔

191۔اللہ کی آفاقی آیات کا مطالعہ کرنے والے صاحبان عقل پر جب معرفت الٰہی کا دروازہ کھل جاتا ہے تو یہ نتائج قدرتی طور پر مترتب ہوتے ہیں: ٭ اس کے قلب و ضمیر میں ذکرِ خدا رچ بس جاتا ہے، وہ اٹھتے بیٹھتے لیٹتے ہر حال میں اللہ کو یاد کرتا ہے۔ ٭اس کا آفاقی مطالعہ جاری رہتا ہے اور اس نتیجے تک پہنچ جاتا ہے رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ ہٰذَا بَاطِلًا یعنی پروردگارا یہ سب کچھ تو نے بے حکمت نہیں بنایا۔ ٭ فہم و معرفت کی یہ منزل پانے کے بعد انسان پر اپنی خلقت اور اپنے وجود کا راز منکشف ہو جاتا ہے اور فوراً دست دعا بلند ہو جاتا ہے: فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ پس ہمیں عذاب جہنم سے بچا لے۔