وَ لَئِنۡ اَتَیۡتَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ بِکُلِّ اٰیَۃٍ مَّا تَبِعُوۡا قِبۡلَتَکَ ۚ وَ مَاۤ اَنۡتَ بِتَابِعٍ قِبۡلَتَہُمۡ ۚ وَ مَا بَعۡضُہُمۡ بِتَابِعٍ قِبۡلَۃَ بَعۡضٍ ؕ وَ لَئِنِ اتَّبَعۡتَ اَہۡوَآءَہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَکَ مِنَ الۡعِلۡمِ ۙ اِنَّکَ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیۡنَ﴿۱۴۵﴾ۘ

۱۴۵۔ اور اگر آپ اہل کتاب کے سامنے ہر قسم کی نشانی لے آئیں پھر بھی یہ لوگ آپ کے قبلے کی پیروی نہیں کریں گے اور نہ آپ ان کے قبلے کی اتباع کرنے والے ہیں اور نہ ان میں سے کوئی دوسرے کے قبلے کی اتباع کرنے پر تیار ہے اور (پھر بات یہ ہے کہ)آپ کے پاس جو علم آ چکا ہے اس کے بعد بھی اگر آپ لوگوں کی خواہشات کی پیروی کرنے لگیں تو آپ زیادتی کرنے والوں میں ہوں گے۔

143 تا 145۔ یہ درحقیقت ایک گروہ کی امامت کا اعلان ہے جو رسول ﷺ اور لوگوں کے درمیان امت وسط کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیونکہ: ٭آیت کا تسلسل امامت کی منتقلی کے بارے میں ہے۔ ٭ امت وسط کو لوگوں کے اعمال کا شاہد بنایا گیا ہے، لہٰذا گواہ کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کے اعمال کے ساتھ اس کا ایک تعلق موجود ہو، جس طرح اعضاء و جوارح قیامت کے دن انسانی اعمال پر گواہی دیں گے۔ ٭ قیامت کے دن حساب و مواخذہ اور گواہی، حقائق پر مبنی ہو گی، دنیا کی طرح ظاہری نہ ہو گی۔ پس نتیجہ یہ نکلا کہ آخرت میں جب لوگوں سے حساب لیا جائے گا تو رسول ﷺ اس امت وسط پر گواہی دیں گے۔ اس کے بعد رسول ﷺ کے قائم مقام ہونے کی حیثیت سے دیگر لوگوں پر امت وسط گواہی دے گی۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے: و لا یکون الشھداء علی الناس الا الائمۃ و الرسل ۔ لوگوں پر گواہ صرف ائمہ اور انبیاء ہو سکتے ہیں۔ تحویل قبلہ سے یہ دیکھنا بھی مقصود تھا کہ کون قومی تعصبات اور گروہی ترجیحات کے پرستار ہیں، کون قبلے کو آبائی اور قبائلی اعتبار سے قبول کرتے ہیں اور کون ہیں جو قبلے کو الٰہی سمجھ کر مان لیتے ہیں۔

وَمَا كَانَ اللہُ لِـيُضِيْعَ... : اس سوال کا جواب ہے کہ قبلہ اگر کعبہ ہے تو بیت المقدس کی طرف پڑھی جانے والی نمازوں کا کیا ہو گا؟ اس آیت میں نماز کو ایمان سے تعبیر کیا گیا ہے۔ چنانچہ جب حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایمان کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا : اَلاِیْمَانُ عَمَلٌ کُلُّہُ ۔(الکافی 2:33) ایمان پورے عمل سے عبارت ہے۔ پھر آپ علیہ السلام نے اس آیت کی تلاوت فرمائی۔

رسولِ کریم ﷺ کو قبلہ کی تبدیلی کا انتظار تھا۔ اہلِ کتاب بھی جانتے تھے کہ آنے والے رسول دو قبلوں کی طرف نماز پڑھیں گے اور امامت کی منتقلی کا لازمہ بھی یہی ہے کہ قبلہ تبدیل کر دیا جائے۔ ادھر یہودیوں کا یہ طعنہ کہ تم ہمارے قبلے کی طرف رخ کرتے ہو، گراں گزر رہا تھا۔ چنانچہ اللہ نے اپنے حبیب کو ان کی پسند کا قبلہ عنایت فرمایا۔