وَ اِذِ اسۡتَسۡقٰی مُوۡسٰی لِقَوۡمِہٖ فَقُلۡنَا اضۡرِبۡ بِّعَصَاکَ الۡحَجَرَ ؕ فَانۡفَجَرَتۡ مِنۡہُ اثۡنَتَاعَشۡرَۃَ عَیۡنًا ؕ قَدۡ عَلِمَ کُلُّ اُنَاسٍ مَّشۡرَبَہُمۡ ؕ کُلُوۡا وَ اشۡرَبُوۡا مِنۡ رِّزۡقِ اللّٰہِ وَ لَا تَعۡثَوۡا فِی الۡاَرۡضِ مُفۡسِدِیۡنَ﴿۶۰﴾

۶۰۔ اور ( اس وقت کو یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لیے پانی طلب کیا تو ہم نے کہا: اپنا عصا پتھر پر ماریں۔ پس (پتھر پر عصا مارنے کے نتیجے میں) اس میں سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے، ہر گروہ کو اپنے گھاٹ کا علم ہو گیا، اللہ کے رزق سے کھاؤ اور پیو اور ملک میں فساد پھیلاتے مت پھرو۔

60۔ معجزات قانون طبیعیت کی عام دفعات کے بالکل مطابق نہیں ہوتے۔ ایک چٹان سے بارہ چشموں کا پھوٹنا عقلاً ممکن ہے، لیکن دو گز کا عصا مارنے سے نہیں، اس لیے معجزات سائنسی تجربات اور معمولات پر پورا نہیں اترتے۔ بعض مرعوب اذہان سائنسی اصولوں کے مطابق معجزات کی تاویل کرتے ہیں، حالانکہ فزیکلی قوانین کی عام سطحی دفعات اور ان کے کلیے دائمی حیثیت نہیں رکھتے اور ان سطحی علل و اسباب کے ماوراء حقیقی علل و اسباب کارفرما ہوتے ہیں جو دائمی ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان سطحی علل و اسباب سے ہٹ کر رونما ہونے والے واقعات میں صرف حقیقی علل و اسباب کارفرما ہوتے ہیں۔ جیسے دعا کے اثرات۔ معجزات میں حقیقی علل و اسباب کار فرما ہوتے ہیں۔ فرق یہ ہوتا ہے کہ یہ علل و اسباب ناقابل تسخیر ہوتے ہیں۔ بیماری سے شفا اگر دست مسیحا کے ذریعہ ہو تو شفایابی کے علل و اسباب ناقابل تسخیر ہیں، جب کہ دوا کے ذریعہ حاصل ہونے والی شفا کے علل و اسباب قابل تسخیر ہیں۔ مزید وضاحت کے لیے ہماری تفسیر کا مطالعہ فرمائیں۔

بعض اہلِ قلم کے مطابق جزیرہ نمائے سینا میں وہ چٹان ابھی تک موجود ہے اور سیاح جا کر اسے دیکھتے ہیں۔ چشموں کے شگاف اب بھی پائے جاتے ہیں۔