وَ اِذۡ قُلۡنَا ادۡخُلُوۡا ہٰذِہِ الۡقَرۡیَۃَ فَکُلُوۡا مِنۡہَا حَیۡثُ شِئۡتُمۡ رَغَدًا وَّ ادۡخُلُوا الۡبَابَ سُجَّدًا وَّ قُوۡلُوۡا حِطَّۃٌ نَّغۡفِرۡ لَکُمۡ خَطٰیٰکُمۡ ؕ وَ سَنَزِیۡدُ الۡمُحۡسِنِیۡنَ﴿۵۸﴾

۵۸۔اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے کہا تھا: اس بستی میں داخل ہو جاؤ اور فراوانی کے ساتھ جہاں سے چاہو کھاؤ اور (شہر کے) دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہو جاؤ اور کہو: گناہوں کو بخش دے تو ہم تمہارے گناہ بخش دیں گے اور ہم نیکوکاروں کو زیادہ ہی عطا کریں گے۔

58۔ چالیس سال کی سزا کاٹنے کے بعد جب انہیں ارض مقدس میں داخل ہونے کا حکم ملا تو ان سے صرف یہ کہا گیا کہ داخل ہوتے وقت اپنے گناہوں سے توبہ کرنا اور حِطَّۃٌ ”گناہ بخش دے“ کہنا لیکن انہوں نے اس حکم کا مذاق اڑایا اور حنطۃ گیہوں کہ دیا۔ الۡبَابَ سے مراد ممکن ہے کہ بیت المقدس کا وہ دروازہ ہو جسے آج بھی باب حطۃ کہا جاتا ہے۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے: نحن باب حطتکم ۔ ”ہم تمہارے لیے باب حطۃ ہیں“ ۔(بحار الانوار 13: 168)