فَاَزَلَّہُمَا الشَّیۡطٰنُ عَنۡہَا فَاَخۡرَجَہُمَا مِمَّا کَانَا فِیۡہِ ۪ وَ قُلۡنَا اہۡبِطُوۡا بَعۡضُکُمۡ لِبَعۡضٍ عَدُوٌّ ۚ وَ لَکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ مُسۡتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰی حِیۡنٍ﴿۳۶﴾

۳۶۔پس شیطان نے ان دونوں کو وہاں سے پھسلا دیا، پھر جس (نعمت) میں وہ دونوں قیام پذیر تھے اس سے ان دونوں کو نکلوا دیا اور ہم نے کہا: (اب) تم ایک دوسرے کے دشمن بن کر نیچے اتر جاؤ اور ایک مدت تک زمین میں تمہارا قیام اور سامان زیست ہو گا۔

32 تا 36۔ حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے زمین پر بسانے کے لیے خلق فرمایا تھا۔ اس خلیفہ ارض کو زمین پر بسانے سے پہلے مختلف مراحل سے گزارا گیا: ٭ سب سے پہلے انہیں اسماء کی تعلیم دی۔ ٭ پھر معلم کے مقام پر فائز کیا۔ ٭ فرشتوں کو ان کے سامنے جھکایا۔ ٭ شجرﮤ ممنوعہ کے ذریعے ایک عیار دشمن سے ان کا سامنا کرایا۔

یہاں انسانی زندگی کے لوازم کا عندیہ ملتا ہے :

اسۡکُنۡ سے مکان۔ 2۔ زَوۡجُکَ سے بیوی۔ 3۔ کُلَا سے روٹی۔ 4۔ وَ لَا تَقۡرَبَا سے قانون کی پابندی۔ ان مراحل کے بعد وَ لَکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ مُسۡتَقَرٌّ کا حکم نامہ جاری ہوا۔

حضرت آدم علیہ السلام کو زمین پر بسانے سے پہلے دو دشمنوں سے آگاہ کیا گیا۔ ایک داخلی دشمن جو نفسانی خواہشات ہے اور ایک بیرونی دشمن ابلیس۔ ساتھ ہی یہ درس بھی یاد کرایا کہ بیرونی دشمن داخلی دشمن (خواہشات ) کے ذریعے حملہ آور ہوتا ہے۔