لَیۡسَ عَلَی الضُّعَفَآءِ وَ لَا عَلَی الۡمَرۡضٰی وَ لَا عَلَی الَّذِیۡنَ لَا یَجِدُوۡنَ مَا یُنۡفِقُوۡنَ حَرَجٌ اِذَا نَصَحُوۡا لِلّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ؕ مَا عَلَی الۡمُحۡسِنِیۡنَ مِنۡ سَبِیۡلٍ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿ۙ۹۱﴾

۹۱۔ ضعیفوں اور مریضوں اور ان لوگوں پر جن کے پاس خرچ کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے کوئی گناہ نہیں، بشرطیکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے خیر خواہ ہوں، نیک لوگوں پر الزام کی کوئی راہ نہیں ہوتی اور اللہ بڑا معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

91۔ کمزوری، بیماری اور مفلسی اس صورت میں قابل در گزر عذر بنتی ہیں جب یہ اس کی نیت، عزم اور ارادے کے سامنے رکاوٹ ہوں۔ یعنی یہ شخص اللہ اور رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لیے خیر خواہ تھا، جذبہ جہاد سے سرشار تھا۔ اعلان جہاد سن کر یہ بستر پر تلملاتا ہے اور جہاد میں شرکت سے رہ جانے پر افسوس کرتا ہے۔ ان لوگوں کے لیے یہ چیزیں عذر نہیں بنتیں جو جہاد میں شرکت کا جذبہ نہیں رکھتے، بیماری اور ضعیفی ان کے عزم و ارادے کے سامنے رکاوٹ نہیں، بلکہ وہ تو خوش ہوتے ہیں کہ اچھے موقع پر بیماری آگئی ورنہ یہ مصیبت اٹھانی ہی پڑتی۔

وَّ لَا عَلَی الَّذِیۡنَ اِذَا مَاۤ اَتَوۡکَ لِتَحۡمِلَہُمۡ قُلۡتَ لَاۤ اَجِدُ مَاۤ اَحۡمِلُکُمۡ عَلَیۡہِ ۪ تَوَلَّوۡا وَّ اَعۡیُنُہُمۡ تَفِیۡضُ مِنَ الدَّمۡعِ حَزَنًا اَلَّا یَجِدُوۡا مَا یُنۡفِقُوۡنَ ﴿ؕ۹۲﴾

۹۲۔اور نہ ہی ان لوگوں پر(کوئی الزام ہے) جنہوں نے آپ سے درخواست کی تھی کہ آپ ان کے لیے سواری فراہم کریں آپ نے کہا: میرے پاس کوئی سواری موجود نہیں کہ تمہیں اس پر سوار کروں (یہ سن کر) وہ واپس گئے جب کہ ان کی آنکھیں اس غم میں آنسو بہا رہی تھیں کہ ان کے پاس خرچ کرنے کے لیے کچھ نہ تھا۔

92۔ یہ ان لوگوں کا ذکر ہے جو جذبہ جہاد سے سرشار ہیں۔ اللہ اور رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لیے خیر خواہ ہیں۔ لیکن ان کے اس نیک ارادے کے سامنے وسائل کا فقدان مانع ہے۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ جنگی وسائل نہ حکومت کے پاس ہیں، نہ عوام کے پاس۔ اس وقت ان کے سچے جذبات کے گواہ ان کے مقدس رخساروں پر آنسؤوں کی شکل میں شہادت دے رہے ہیں۔

اِنَّمَا السَّبِیۡلُ عَلَی الَّذِیۡنَ یَسۡتَاۡذِنُوۡنَکَ وَ ہُمۡ اَغۡنِیَآءُ ۚ رَضُوۡا بِاَنۡ یَّکُوۡنُوۡا مَعَ الۡخَوَالِفِ ۙ وَ طَبَعَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ فَہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۹۳﴾

۹۳۔الزام تو بس ان لوگوں پر ہے جو دولت مند ہونے کے باوجود آپ سے درخواست کرتے ہیں (کہ جہاد سے معاف کیے جائیں)، انہوں نے گھر بیٹھنے والی عورتوں میں شامل رہنا پسند کیا اور اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی لہٰذا وہ نہیں جانتے۔

93۔ اگر یہ لوگ کچھ جانتے ہوتے تو اس ذلت و رسوائی کو ہرگز پسند نہ کرتے۔ معذوروں اور عورتوں کے ساتھ گھروں میں رہ کر اپنے لیے تاریخ میں عار و ننگ ثبت نہ کرتے۔ ملاحظہ ہو آیت 87۔

یَعۡتَذِرُوۡنَ اِلَیۡکُمۡ اِذَا رَجَعۡتُمۡ اِلَیۡہِمۡ ؕ قُلۡ لَّا تَعۡتَذِرُوۡا لَنۡ نُّؤۡمِنَ لَکُمۡ قَدۡ نَبَّاَنَا اللّٰہُ مِنۡ اَخۡبَارِکُمۡ ؕ وَ سَیَرَی اللّٰہُ عَمَلَکُمۡ وَ رَسُوۡلُہٗ ثُمَّ تُرَدُّوۡنَ اِلٰی عٰلِمِ الۡغَیۡبِ وَ الشَّہَادَۃِ فَیُنَبِّئُکُمۡ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ﴿۹۴﴾

۹۴۔ جب تم ان کے پاس واپس پہنچ جاؤ گے تو وہ تمہارے سامنے عذر پیش کریں گے، کہدیجئے:عذر مت تراشو! ہم تمہاری بات ہرگز نہیں مانیں گے اللہ نے ہمیں تمہارے حالات بتا دیے ہیں اور عنقریب اللہ تمہارے اعمال دیکھے گا اور اس کا رسول بھی پھر تم لوگ غیب و شہود کے جاننے والے کی طرف پلٹائے جاؤ گے پھر وہ تمہیں بتائے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔

94۔ جو منافق پیچھے رہنے والی عورتوں میں رہے ہیں وہ بہانے تراشیں گے۔ حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لیے یہ حکم ہو رہا ہے کہ آپ ان کے ان بہانوں کو قبول نہ کریں اور یہ مؤقف اختیار کریں: تمہاری گزشتہ کرتوتوں کی اللہ نے ہمیں اطلاع دی ہے کہ تم کیا کرتے اور کیا کہتے ہو اور آئندہ تمہارے اعمال پر اللہ اور اس کا رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نظر رکھے گا کہ تم کیا کرنے والے ہو، پھر تمہیں اللہ کی بارگاہ میں اپنی کرتوتوں کا بوجھ لے کر پہنچنا ہے۔

سَیَحۡلِفُوۡنَ بِاللّٰہِ لَکُمۡ اِذَا انۡقَلَبۡتُمۡ اِلَیۡہِمۡ لِتُعۡرِضُوۡا عَنۡہُمۡ ؕ فَاَعۡرِضُوۡا عَنۡہُمۡ ؕ اِنَّہُمۡ رِجۡسٌ ۫ وَّ مَاۡوٰىہُمۡ جَہَنَّمُ ۚ جَزَآءًۢ بِمَا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ﴿۹۵﴾

۹۵۔جب تم ان کی طرف لوٹ کر جاؤ گے تو وہ تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان سے درگزر کرو پس تم ان سے درگزر کر دینا، یہ لوگ ناپاک ہیں اور ان سے سرزد ہونے والے اعمال کی سزا میں ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔

95۔ پہلے جملے لِتُعۡرِضُوۡا میں اعراض سے مراد درگزر ہے کہ وہ چاہیں گے کہ ان کے عذر قبول ہوں اور درگزر کیا جائے۔ دوسرے جملے فَاَعۡرِضُوۡا میں اعراض سے مراد بے اعتنائی ہے، یعنی ان منافقین کی باتوں کو اعتنا میں نہ لائیں کیونکہ یہ لوگ ناپاک ہیں ان کو نزدیک نہ آنے دیں۔

یَحۡلِفُوۡنَ لَکُمۡ لِتَرۡضَوۡا عَنۡہُمۡ ۚ فَاِنۡ تَرۡضَوۡا عَنۡہُمۡ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یَرۡضٰی عَنِ الۡقَوۡمِ الۡفٰسِقِیۡنَ﴿۹۶﴾

۹۶۔ یہ تمہارے سامنے قسم کھائیں گے تاکہ تم ان سے راضی ہو جاؤ، پس اگر تم ان سے راضی ہو بھی جاؤ تو اللہ یقینا فاسق قوم سے راضی نہ ہو گا۔

اَلۡاَعۡرَابُ اَشَدُّ کُفۡرًا وَّ نِفَاقًا وَّ اَجۡدَرُ اَلَّا یَعۡلَمُوۡا حُدُوۡدَ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ﴿۹۷﴾

۹۷۔ یہ بادیہ نشین بدو کفر و نفاق میں انتہائی سخت ہیں اور اس قابل ہی نہیں کہ اللہ نے اپنے رسول پر جو کچھ نازل کیا ہے ان کی حدود کو سمجھ سکیں اور اللہ بڑا دانا، حکمت والا ہے ۔

97۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت سے آگے کی چند آیات غزوہ تبوک سے واپسی پر نازل ہوئی ہیں۔ یہاں ذکر دیہاتی عربوں کا ہے کہ یہ لوگ تہذیب و تمدن سے دور ہونے کی وجہ سے سخت مزاج اور تند خو ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے یہ صحرائی لوگ کفر و نفاق میں بھی شہریوں سے زیادہ سخت مؤقف رکھنے والے ہوتے ہیں، کیونکہ علماء و صالحین کی صحبت نہ ملنے کی وجہ سے ان میں انسانی اقدار بیدار نہیں ہوتیں، اس لیے یہ لوگ اسلام کے انسان ساز دستور و احکام کو بھی نہیں سمجھ پاتے۔ اعرابیت اسلامی تہذیب و اخلاق سے دوری کو کہتے ہیں خواہ مروجہ تمدن کے مرکز میں ہی کیوں نہ ہو۔

وَ مِنَ الۡاَعۡرَابِ مَنۡ یَّتَّخِذُ مَا یُنۡفِقُ مَغۡرَمًا وَّ یَتَرَبَّصُ بِکُمُ الدَّوَآئِرَ ؕ عَلَیۡہِمۡ دَآئِرَۃُ السَّوۡءِ ؕ وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ﴿۹۸﴾

۹۸۔اور ان بدوؤں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ جو کچھ راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں اسے تاوان سمجھتے ہیں اور اس انتظار میں رہتے ہیں کہ تم پر گردش ایام آئے، بری گردش خود ان پر آئے اور اللہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔

وَ مِنَ الۡاَعۡرَابِ مَنۡ یُّؤۡمِنُ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ یَتَّخِذُ مَا یُنۡفِقُ قُرُبٰتٍ عِنۡدَ اللّٰہِ وَ صَلَوٰتِ الرَّسُوۡلِ ؕ اَلَاۤ اِنَّہَا قُرۡبَۃٌ لَّہُمۡ ؕ سَیُدۡخِلُہُمُ اللّٰہُ فِیۡ رَحۡمَتِہٖ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿٪۹۹﴾

۹۹۔ اور انہی بدوؤں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ (راہ خدا میں) خرچ کرتے ہیں اسے اللہ کے تقرب اور رسول سے دعائیں لینے کا ذریعہ سمجھتے ہیں، ہاں یہ ان کے لیے تقرب کا ذریعہ ہے اللہ انہیں عنقریب اپنی رحمت میں داخل کرے گا، بیشک اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

وَ السّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ وَ الۡاَنۡصَارِ وَ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحۡسَانٍ ۙ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ وَ اَعَدَّ لَہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ تَحۡتَہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ﴿۱۰۰﴾

۱۰۰۔ اور مہاجرین و انصار میں سے جن لوگوں نے سب سے پہلے سبقت کی اور جو نیک چال چلن میں ان کے پیرو ہوئے اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لیے ایسی جنتیں تیار کی ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ان میں وہ ابد تک ہمیشہ رہیں گے یہی عظیم کامیابی ہے۔

100۔ مہاجرین سابقین اولین وہ لوگ ہیں جنہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی یا جنگ بدر سے پہلے اسلام قبول کیا اور ہجرت کی۔ انصار میں سابقین اولین وہ سات افراد ہیں جنہوں نے بعثت کے گیارہویں سال منیٰ کی بیعت عقبہ میں شرکت کی۔ ان کے بعد وہ ستر افراد ہیں جنہوں نے بعثت کے بارہویں سال کی بیعت میں شرکت کی۔ ان کے بعد ان لوگوں کا رتبہ آتا ہے جنہوں نے رسول اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرستادہ حضرت مصعب بن عمیر کے ہاتھوں اسلام قبول کیا۔ ان کے بعد ان لوگوں کا رتبہ آتا ہے جنہوں نے جنگ بدر سے پہلے اسلام قبول کیا۔ کیونکہ سنہ2 ہجری میں جنگ بدر کے موقع پر منافقت شروع ہو گئی تھی۔

تابعین ان لوگوں کو کہتے ہیں جو نیک کرداری میں مہاجرین و انصار کی اتباع کریں لیکن مطلق نہیں، بِـاِحۡسَانٍ کی قید کے ساتھ۔ دریا بادی صاحب اس جگہ لکھتے ہیں: بہت قابل غور ہے۔ وہ مہاجر ہوں یا انصار یا صحابہ کرام کی کوئی قسم ہو، بہرحال یہ حضرات معصوم نہ تھے۔ عصمت صرف خاصۂ نبوت ہے۔ اس لیے حکم ان حضرات کی اتباع مطلق کا نہیں، بلکہ نیک کرداری میں ان کی اتباع کی جائے۔

تابعین میں قیامت تک کے تمام طبقات شامل ہیں۔ یہاں اصطلاحی تابعین کو مراد لینا درست نہیں ہے۔ تابعین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سابقین اولین کے کردار کو مشعل راہ بنانے کے لیے نیک کرداری اور اس کے عدم میں تمیز کریں، اس کے بغیر پیروی نہیں ہو سکتی۔ اس تمیز کرنے کو طعن کہنا درست نہیں ہے اور تمیز سے آگے بڑھنا (طعن) بھی درست نہیں ہے۔