بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

سَبِّحِ اسۡمَ رَبِّکَ الۡاَعۡلَی ۙ﴿۱﴾

۱۔ (اے نبی) اپنے رب اعلیٰ کے نام کی تسبیح کرو

2۔ یعنی تخلیق کے ساتھ توازن اور تناسب قائم کیا۔ چنانچہ اس کائنات میں کوئی شے کسی شے سے متصادم نہیں۔ یہ کائنات حسن و جمال میں ایسی شکل میں ہے کہ اس سے بہتر قابل تصور نہیں۔

الَّذِیۡ خَلَقَ فَسَوّٰی ۪ۙ﴿۲﴾

۲۔ جس نے پیدا کیا اور توازن قائم کیا،

وَ الَّذِیۡ قَدَّرَ فَہَدٰی ۪ۙ﴿۳﴾

۳۔ اور جس نے تقدیر بنائی پھر راہ دکھائی۔

قَدَّرَ یعنی تقدیر سازی کی، صرف تخلیق نہیں بلکہ اس کے ساتھ اس کے لیے منصوبہ بندی کی اور ہر مخلوق کے لیے حدود و قیود کا تعین کیا اور اس کی ذات و صفات اور افعال کے لیے ایک قانون اور دستور وضع کیا، جس سے تجاوز کرنا ممکن نہ ہو۔

فَہَدٰی : مخلوق کی آئندہ منصوبہ بندی کے ساتھ اس میں آئندہ اپنی زندگی کو قائم رکھنے کے لیے اصول و ضوابط اور لوازم کے حصول کی ہدایت بھی ودیعت فرمائی اور عبودیت و بندگی کے تقاضے بھی اس کی فطرت میں ودیعت فرمائے۔ اسی فطری ہدایت کی بنا پر بچہ ماں کی چھاتی کو پہچان لیتا ہے اور ہر جاندار اپنی روزی کے مقامات کی طرف چل پڑتا ہے۔ یہ ہدایت خلقت کے ماوراء ایک شعور ہے جو اللہ کی نشانی ہے۔

وَ الَّذِیۡۤ اَخۡرَجَ الۡمَرۡعٰی ۪ۙ﴿۴﴾

۴۔ اور جس نے چارہ اگایا،

فَجَعَلَہٗ غُثَآءً اَحۡوٰی ؕ﴿۵﴾

۵۔ پھر (کچھ دیر بعد) اسے سیاہ خاشاک کر دیا،

سَنُقۡرِئُکَ فَلَا تَنۡسٰۤی ۙ﴿۶﴾

۶۔ (عنقریب) ہم آپ کو پڑھائیں گے پھر آپ نہیں بھولیں گے،

6۔ قرآن کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے خود اپنے ذمے لی ہے، لہٰذا قرآن کے تحفظ کا اولین مرحلہ یہی ہے کہ جس ہستی کے سینے پر قرآن نازل کیا جا رہا ہے، اس سینے میں وہ حفظ ہو جائے اور عدم نسیان اس کا لازمہ ہے۔ ہم نے کئی بار پہلے بھی اس بات کی وضاحت کی ہے کہ رسول کریم وحی کو اپنے حواس ظاہری کے ذریعے وصول نہیں کرتے تھے، بلکہ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وحی کو اپنے پورے وجود کے ساتھ وصول فرماتے تھے۔ اپنے وجود کو نہ بھولا جا سکتا ہے، نہ اس میں غلطی سرزد ہو سکتی ہے۔ لہٰذا صحیح بخاری کی وہ روایت صریح قرآن کے خلاف ہے جس میں رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف ایک آیت کی فراموشی کی نسبت دی گئی ہے۔ الا ماشاء اللہ کا استثنیٰ صرف اس بات کا اظہار ہے کہ اگر اللہ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اس وحی کو سلب کرنا چاہے تو پھر آپ بھول سکتے ہیں، مگر اللہ ایسا نہیں کرے گا۔ چنانچہ سورہ بنی اسرائیل آیت 86 ۔ 87 میں فرمایا: وَ لَئِنۡ شِئۡنَا لَنَذۡہَبَنَّ بِالَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَکَ بِہٖ عَلَیۡنَا وَکِیۡلًا ۔ اور اگر ہم چاہیں تو ہم نے جو کچھ آپ کی طرف وحی کی ہے وہ سلب کر لیں، پھر آپ کو ہمارے مقابلے میں کوئی حمایتی نہیں ملے گا۔ اِلَّا رَحۡمَۃً مِّنۡ رَّبِّکَ ؕ اِنَّ فَضۡلَہٗ کَانَ عَلَیۡکَ کَبِیۡرًا ۔ سوائے آپ کے رب کی رحمت کے، آپ پر اس کا بڑا فضل ہے۔ یعنی اللہ کی رحمت اور فضل کے ہوتے ہوئے یہ وحی سلب نہیں ہو سکتی۔

اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰہُ ؕ اِنَّہٗ یَعۡلَمُ الۡجَہۡرَ وَ مَا یَخۡفٰی ؕ﴿۷﴾

۷۔ مگر جو اللہ چاہے، وہ ظاہر اور پوشیدہ باتوں کو یقینا جانتاہے۔

وَ نُیَسِّرُکَ لِلۡیُسۡرٰی ۚ﴿ۖ۸﴾

۸۔ اور ہم آپ کے لیے آسان طریقہ فراہم کریں گے۔

فَذَکِّرۡ اِنۡ نَّفَعَتِ الذِّکۡرٰی ؕ﴿۹﴾

۹۔ پس جہاں نصیحت مفید ہو نصیحت کرتے رہو۔

سَیَذَّکَّرُ مَنۡ یَّخۡشٰی ﴿ۙ۱۰﴾

۱۰۔ جو شخص خوف رکھتا ہے وہ جلد نصیحت قبول کرتا ہے۔