لَہُمۡ مِّنۡ جَہَنَّمَ مِہَادٌ وَّ مِنۡ فَوۡقِہِمۡ غَوَاشٍ ؕ وَ کَذٰلِکَ نَجۡزِی الظّٰلِمِیۡنَ﴿۴۱﴾

۴۱۔ ان کے لیے جہنم ہی بچھونا اور اوڑھنا ہو گی اور ہم ظالموں کو ایسا بدلہ دیا کرتے ہیں۔

41۔ کفار کے لیے آسمان کے دروازے نہ کھلنے کا مطلب ممکن ہے یہ ہو کہ ان کے اعمال قبول نہ ہوں گے یا پھر یہ کہ ان کا جنت میں داخلہ ممنوع ہو گا۔ چنانچہ بعد کی عبارت سے دوسری تفسیر قرین قیاس معلوم ہوتی ہے جس میں کافروں کا جنت میں داخل ہونا سوئی کے ناکے سے اونٹ کے گزرنے کی طرح محال بتایا ہے۔ جس طرح کافر کا جنت میں داخل ہونا اللہ کے حتمی فیصلے کے خلاف ہے اسی طرح متقی اور پرہیزگار مومن کا جہنم میں داخل ہونا بھی محال اور عدل الٰہی کے خلاف ہے۔

وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَا نُکَلِّفُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَہَاۤ ۫ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ الۡجَنَّۃِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ﴿۴۲﴾

۴۲۔ اور ایمان لانے والے اور نیک اعمال بجا لانے والے اہل جنت ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے، ہم کسی کو (نیک اعمال کی بجا آوری میں) اس کی طاقت سے زیادہ ذمہ دار نہیں ٹھہراتے۔

وَ نَزَعۡنَا مَا فِیۡ صُدُوۡرِہِمۡ مِّنۡ غِلٍّ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہِمُ الۡاَنۡہٰرُ ۚ وَ قَالُوا الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ ہَدٰىنَا لِہٰذَا ۟ وَ مَا کُنَّا لِنَہۡتَدِیَ لَوۡ لَاۤ اَنۡ ہَدٰىنَا اللّٰہُ ۚ لَقَدۡ جَآءَتۡ رُسُلُ رَبِّنَا بِالۡحَقِّ ؕ وَ نُوۡدُوۡۤا اَنۡ تِلۡکُمُ الۡجَنَّۃُ اُوۡرِثۡتُمُوۡہَا بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ﴿۴۳﴾ ۞ؓ

۴۳۔ اور ہم ان کے دلوں میں موجود کینے نکال دیں گے، ان کے (محلات کے) نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی اور وہ کہیں گے: ثنائے کامل ہے اس اللہ کے لیے جس نے ہمیں یہ راستہ دکھایا اور اگر اللہ ہماری رہنمائی نہ فرماتا تو ہم ہدایت نہ پاتے، ہمارے رب کے پیغمبر یقینا حق لے کر آئے اور اس وقت ان (مومنین) کو یہ ندا آئے گی کہ یہ جنت جس کے تم وارث بنائے گئے ہو ان اعمال کے صلے میں ہے جنہیں تم بجا لاتے رہے ہو۔

43۔ اہل ایمان کے جنت میں داخل ہونے سے پہلے اگر دنیا میں ان کی آپس میں کدورت ہو گی تو اللہ تعالیٰ ان کے دلوں سے ان کدورتوں اور عداوتوں کو صاف کر دے گا تاکہ ایک دوسرے کو دیکھ کر خوشی اور کیف و سرور محسوس کریں۔ کیونکہ جن سے عداوت ہو ان کو دیکھنے سے اذیت ہوتی ہے۔ جنت میں کسی قسم کی اذیت نہ ہو گی اور احباب کے ساتھ بیٹھنے سے لطف اندوز ہوں گے۔

وَ نَادٰۤی اَصۡحٰبُ الۡجَنَّۃِ اَصۡحٰبَ النَّارِ اَنۡ قَدۡ وَجَدۡنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَہَلۡ وَجَدۡتُّمۡ مَّا وَعَدَ رَبُّکُمۡ حَقًّا ؕ قَالُوۡا نَعَمۡ ۚ فَاَذَّنَ مُؤَذِّنٌۢ بَیۡنَہُمۡ اَنۡ لَّعۡنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظّٰلِمِیۡنَ ﴿ۙ۴۴﴾

۴۴۔اور اہل جنت اہل جہنم سے پکار کر کہیں گے:ہم نے وہ تمام وعدے سچے پائے جو ہمارے رب نے ہم سے کیے تھے، کیا تم نے بھی اپنے رب کے وعدوں کو سچا پایا؟ وہ جواب دیں گے:ہاں، تو ان (دونوں) کے درمیان میں سے ایک پکارنے والا پکارے گا: ظالموں پر اللہ کی لعنت ہو۔

44۔اہل جنت اور اہل جہنم کے اس مکالمے سے اہل جنت کو نعمتوں کی زیادہ قدر ہو گی اور اہل جہنم کی حسرت و ندامت میں اضافہ ہو گا۔ ایسے میں اہل جنت میں سے ایک مؤذن اذان برائت دے گا جس کا مضمون یہ ہو گا: اَنۡ لَّعۡنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظّٰلِمِیۡنَ ۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام نے کوفہ میں ایک خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: انا المؤذن فی الدنیا والآخرۃ، قال اللّٰہ عزوجل: فَاَذَّنَ مُؤَذِّنٌۢ بَیۡنَہُمۡ اَنۡ لَّعۡنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظّٰلِمِیۡنَ وانا ذلک المؤذن و قال:وَاَذَانٌ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖٓ انا ذلک المؤذن ۔ میں دینا و آخرت دونوں میں مؤذن ہوں۔ اللہ عزوجل نے فرمایا: فَاَذَّنَ مُؤَذِّنٌۢ بَیۡنَہُمۡ اَنۡ لَّعۡنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظّٰلِمِیۡنَ میں ہی وہ مؤذن ہوں نیز فرمایا:َ اَذَانٌ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖٓ یہاں بھی میں ہی وہ مؤذن ہوں“۔ (معانی الاخبار ص 58)

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مشرکین سے برائت کا اعلان بحکم خدا و رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا جو دنیا میں شرک و ایمان کے درمیان ایک فیصلہ کن اذان تھی۔ وہ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی فتح، نفئ شرک اور توحید کی اذان تھی۔ آخرت میں ہونے والی یہ اذان اسی اذان کا تسلسل ہے۔ وہی حق والوں کی اذان اور اہل جنت و اہل جہنم میں امتیاز کی اذان۔ اب ظالموں سے برائت کی نہیں بلکہ ظالموں پر لعنت کی اذان، تاریخ اذان کی سب سے اہم ترین اذان اور سب سے آخری اذان۔

البیان کے مطابق ابو القاسم حسکانی نے محمد حنفیہ سے اور انہوں نے حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: انا ذلک المؤذن ۔ وہ مؤذن میں ہی ہوں۔

الَّذِیۡنَ یَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ یَبۡغُوۡنَہَا عِوَجًا ۚ وَ ہُمۡ بِالۡاٰخِرَۃِ کٰفِرُوۡنَ ﴿ۘ۴۵﴾

۴۵۔جو لوگوں کو راہ خدا سے روکتے اور اس میں کجی پیدا کرنا چاہتے تھے اور وہ آخرت کے منکر تھے۔

وَ بَیۡنَہُمَا حِجَابٌ ۚ وَ عَلَی الۡاَعۡرَافِ رِجَالٌ یَّعۡرِفُوۡنَ کُلًّۢا بِسِیۡمٰہُمۡ ۚ وَ نَادَوۡا اَصۡحٰبَ الۡجَنَّۃِ اَنۡ سَلٰمٌ عَلَیۡکُمۡ ۟ لَمۡ یَدۡخُلُوۡہَا وَ ہُمۡ یَطۡمَعُوۡنَ﴿۴۶﴾

۴۶۔اور (اہل جنت اور اہل جہنم) دونوں کے درمیان ایک حجاب ہو گا اور بلندیوں پر کچھ ایسے افراد ہوں گے جو ہر ایک کو ان کی شکلوں سے پہچان لیں گے اور اہل جنت سے پکار کر کہیں گے: تم پر سلامتی ہو، یہ لوگ ابھی جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے مگر امیدوار ہوں گے۔

وَ اِذَا صُرِفَتۡ اَبۡصَارُہُمۡ تِلۡقَآءَ اَصۡحٰبِ النَّارِ ۙ قَالُوۡا رَبَّنَا لَا تَجۡعَلۡنَا مَعَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ﴿٪۴۷﴾

۴۷۔ اور جب ان کی نگاہیں اہل جہنم کی طرف پلٹائی جائیں گی تو وہ کہیں گے: ہمارے رب ہمیں ظالموں کے ساتھ شامل نہ کرنا۔

47۔ یہ جملہ اصحاب الاعراف ہی کی طرف سے ہے کیونکہ دوسرے لوگ تو پس حجاب میں ہوں گے وہ اصحاب النار کی طرف نہیں دیکھ رہے ہوں گے۔ اس دعا سے اول تو یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ظالمین کی حالت کس قدر وحشت ناک ہو گی کہ ہر دیکھنے والا اس سے پناہ مانگتا ہے۔ ثانیاً اولوالعزم انبیاء نے بھی اس قسم کے مضمون کی دعائیں کی ہیں۔

تفسیر البرھان میں آیا ہے کہ مفسر اہل سنت ثعلبی نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ اعراف صراط پر موجود ایک بلند جگہ کا نام ہے۔ وہاں عباسؓ، حمزہؓ، علی بن ابی طالب علیہ السلام اور جعفرؓ ذو الجناحین ہوں گے۔

قیامت کے دن متعدد مقامات پر شفاعت کی ضرورت پیش آئے گی۔ ان میں سے ایک اہم جگہ اعراف یا صراط ہے۔ فریقین کے متعدد طرق سے یہ حدیث وارد ہوئی ہے: لایجوز علی الصراط الا من کتب لہ علی الجواز ۔ صراط سے کوئی گزر نہیں سکے گا مگر وہ جسے علی علیہ السلام پروانہ عطا فرمائیں۔

وَ نَادٰۤی اَصۡحٰبُ الۡاَعۡرَافِ رِجَالًا یَّعۡرِفُوۡنَہُمۡ بِسِیۡمٰہُمۡ قَالُوۡا مَاۤ اَغۡنٰی عَنۡکُمۡ جَمۡعُکُمۡ وَ مَا کُنۡتُمۡ تَسۡتَکۡبِرُوۡنَ﴿۴۸﴾

۴۸۔اور اصحاب اعراف کچھ ایسے لوگوں کو بھی پکاریں گے جنہیں وہ ان کی شکلوں سے پہچانتے ہوں گے اور کہیں گے: آج نہ تو تمہاری جماعت تمہارے کام آئی اور نہ تمہارا تکبر۔

48۔ متعدد روایات میں آیا ہے کہ اصحاب الاعراف ائمہ اہل بیت علیہ السلام ہیں۔ مجمع البیان میں آیا ہے کہ عالم اہل سنت ابو القاسم حسکانی نے اصبغ بن نباتہ سے اور انہوں نے حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ علیہ السلام نے ابن الکواء کو بتایا: ہم ہی اصحاب الاعراف ہیں۔

اَہٰۤؤُلَآءِ الَّذِیۡنَ اَقۡسَمۡتُمۡ لَا یَنَالُہُمُ اللّٰہُ بِرَحۡمَۃٍ ؕ اُدۡخُلُوا الۡجَنَّۃَ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡکُمۡ وَ لَاۤ اَنۡتُمۡ تَحۡزَنُوۡنَ﴿۴۹﴾

۴۹۔اور کیا یہ (اہل جنت) وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں تم قسمیں کھا کر کہتے تھے کہ ان تک اللہ کی رحمت نہیں پہنچے گی؟ (آج انہی لوگوں سے کہا جا رہا ہے کہ) جنت میں داخل ہو جاؤ جہاں نہ تمہیں کوئی خوف ہو گا اور نہ تم محزون ہو گے۔

49۔ اُدۡخُلُوا الۡجَنَّۃَ : جنت میں داخل ہو جاؤ۔ یہ حکم اصحاب الاعراف کی طرف سے مل رہا ہے۔ اس سے وہ حدیث قرآن کے مطابق ثابت ہوئی جس میں فرمایا: عَلِّیٌ قَسِیْمُ النَّارِ وَالْجَنَّۃِ ۔

وَ نَادٰۤی اَصۡحٰبُ النَّارِ اَصۡحٰبَ الۡجَنَّۃِ اَنۡ اَفِیۡضُوۡا عَلَیۡنَا مِنَ الۡمَآءِ اَوۡ مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰہُ ؕ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَہُمَا عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿ۙ۵۰﴾

۵۰۔اور اہل جہنم اہل جنت کو پکاریں گے: تھوڑا پانی ہم پر انڈیل دو یا جو رزق اللہ نے تمہیں دیا ہے اس میں سے کچھ ہمیں دے دو، وہ جواب دیں گے: اللہ نے جنت کا پانی اور رزق کافروں پر حرام کیا ہے۔