یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ خُذُوۡا زِیۡنَتَکُمۡ عِنۡدَ کُلِّ مَسۡجِدٍ وَّ کُلُوۡا وَ اشۡرَبُوۡا وَ لَا تُسۡرِفُوۡا ۚ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الۡمُسۡرِفِیۡنَ﴿٪۳۱﴾

۳۱۔ اے بنی آدم!ہر عبادت کے وقت اپنی زینت(لباس)کے ساتھ رہو اور کھاؤ اور پیو مگر اسراف نہ کرو،اللہ اسراف کرنے والوں کو یقینا دوست نہیں رکھتا۔

قُلۡ مَنۡ حَرَّمَ زِیۡنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیۡۤ اَخۡرَجَ لِعِبَادِہٖ وَ الطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزۡقِ ؕ قُلۡ ہِیَ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا خَالِصَۃً یَّوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّعۡلَمُوۡنَ﴿۳۲﴾

۳۲۔کہدیجئے: اللہ کی اس زینت کو جو اس نے اپنے بندوں کے لیے نکالی اور پاک رزق کو کس نے حرام کیا ؟ کہدیجئے: یہ چیزیں دنیاوی زندگی میں بھی ایمان والوں کے لیے ہیں اور قیامت کے دن تو خالصتاً انہی کے لیے ہوں گی، ہم اسی طرح اہل علم کے لیے آیات کو کھول کر بیان کرتے ہیں۔

31۔32۔ یہ بات ممکن نہیں کہ اللہ دنیا کو زیب و زینت اور پاکیزہ چیزوں سے پر کر دے پھر انہیں اپنے بندوں پر حرام کر دے۔ اللہ کی شریعت میں کوئی شق ایسی نہیں ہے جو فطرت سے متصادم ہو۔ اللہ یہ نہیں چاہتا کہ انسان بد زیبا و بد نما نظر آئے۔ اس نے انسان کو فطرتاً خوبصورت پیدا کیا ہے: لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ ۔ (تین: 4) ہم نے انسان کو بہترین انداز میں پیدا کیا ہے۔ کُلُوۡا وَ اشۡرَبُوۡا وَ لَا تُسۡرِفُوۡا ۔ اس مختصر جملے میں بتایا گیا ہے کہ کیا کھانا چاہیے اور کتنا کھانا چاہیے۔ وَ لَا تُسۡرِفُوۡا اسراف نہ کرو۔ یہ جملہ بتاتا ہے کہ کتنا کھانا چاہیے۔ کسی چیز کے حلال ہونے کی دلیل اس کی ضرورت ہے۔ لہٰذا انسانی جسم کو زندہ اور متحرک رکھنے کے لیے جتنی غذا کی ضرورت ہے، اس کا کھانا مباح اور کبھی واجب ہے۔ اگر کوئی چیز ضرورت کے اصول پر پورا نہیں اترتی تو اس کے جواز پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ ضرورت سے زیادہ خرچ کرنے کا نام اسراف ہے، لہٰذا اسراف ظلم ہے اپنی جان، اقتصادیات، اپنے ملک اور پوری انسانیت پر۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے: اِنَّمَا الْاِسْرَافُ فِیمَا اَفْسَدَ الْمَالَ وَ اَضَرَّ بِالْبَدَنِ (الکافی 4:53)اسراف یہ ہے کہ مال کا ضیاع ہو اور بدن کا ضرر۔ حضرت علی علیہ السلام ایک طویل حدیث میں فرماتے ہیں: پرہیزگار دنیادار کی دنیا میں شرکت کرتے ہیں جبکہ دنیادار پرہیزگار کی آخرت میں شرکت نہیں کرتے۔ (نور الثقلین)

قُلۡ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الۡفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنۡہَا وَ مَا بَطَنَ وَ الۡاِثۡمَ وَ الۡبَغۡیَ بِغَیۡرِ الۡحَقِّ وَ اَنۡ تُشۡرِکُوۡا بِاللّٰہِ مَا لَمۡ یُنَزِّلۡ بِہٖ سُلۡطٰنًا وَّ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ﴿۳۳﴾

۳۳۔ کہدیجئے: میرے رب نے علانیہ اور پوشیدہ بے حیائی (کے ارتکاب)، گناہ، ناحق زیادتی اور اس بات کو حرام کیا ہے کہ تم اللہ کے ساتھ اسے شریک ٹھہراؤ جس کے لیے اس نے کوئی دلیل نہیں اتاری اور یہ کہ تم اللہ کی طرف ایسی باتیں منسوب کرو جنہیں تم نہیں جانتے۔

33۔ سابقہ آیتوں میں جب یہ بتایا گیا کہ اللہ نے زینت اور پاکیزہ رزق کو حلال قرار دیا ہے تو محرمات کا بھی ذکر اس لیے ضروری ہو گیا کہ کسی قسم کی غلط فہمی یا سوء استفادہ کی گنجائش نہ رہے۔ اللہ کی شریعت میں حلال و حرام بھی بندوں پر رحمت ہے کہ وہ طیبات کو حلال اور فواحش کو حرام قرار دیتا ہے۔

وَ لِکُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌ ۚ فَاِذَا جَآءَ اَجَلُہُمۡ لَا یَسۡتَاۡخِرُوۡنَ سَاعَۃً وَّ لَا یَسۡتَقۡدِمُوۡنَ﴿۳۴﴾

۳۴۔ اور ہر قوم کے لیے ایک وقت مقرر ہے پس جب ان کا مقررہ وقت آ جاتا ہے تو نہ ایک گھڑی تاخیر کر سکتے ہیں اور نہ جلدی۔

34۔ہر قوم و ملت کے لیے عروج و زوال ہوتا ہے اور ہر عروج و زوال کے پیچھے اس کے علل و اسباب کارفرما ہوتے ہیں۔ یہی سنت الٰہی ہے جس کا قرآن اکثر حوالہ دیتا ہے۔ مثلاً جب کوئی قوم برائیوں کے ارتکاب میں حد سے گزر جاتی ہے تو اس بدکار قوم کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے۔

خیانت، بدنظمی، کاہلی اور حکمرانوں کا اپنی عوام پر ظلم، زوال کے علل و اسباب میں سے ہیں۔ قانون فطرت و مکافات عمل میں نظم و ضبط کو ایک معجزانہ دخل ہے۔ دنیا کی بدترین چیز ظلم بھی ایک خاص نظم و ضبط سے کیا جائے تو وہ ظلم محسوس نہیں ہوتا۔ چنانچہ جدید تعلیم یافتہ جاہلیت نے یہی کیا ہے کہ اقوام عالم پر نہایت ہی منظم انداز میں ظلم کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ قرآن قوموں کے زوال کے مزید اسباب بھی ذکر کرتا ہے:

1۔ افراد امت اگر ملک کے تدبیر امور میں شریک اور مشیر نہ رہیں بلکہ ان کی حیثیت بے بس فرمانبردار اور بے اختیار مطیع اور منقاد کی سی ہو جائے تو اقتدار والوں کی ہوس رانی کو آزادی مل جاتی ہے اور وہ اس قوم کو قعر مذلت تک پہنچا دیتے ہیں۔

2۔کسی امت اور قوم کے مقدرات پر چند خاندانوں کا تسلط قائم ہو جائے تو اس صورت میں تمام اقدار کو پامال کیا جاتا ہے۔ افراد کی طرح ہر قوم کی ایک طبیعی عمر ہوتی ہے جس طرح بعض صحت اور نفسیات کے اصولوں پر عمل کرنے سے فرد صحت مند ہوتا ہے اور عمر لمبی ہو جاتی ہے بالکل اسی طرح بعض اصولوں پر عمل کرنے سے قومیں ترقی کرتی ہیں۔ مادی تنزل اور ترقی کا دار و مدار مادی علل و اسباب پر ہے۔ اگرچہ ایمان و عبادت کے اپنے اثرات ہیں لیکن یہ چیزیں مادی علل و اسباب کی جگہ نہیں لیتیں۔ مثلاً فصل کے لیے تسبیح و عبادت کھاد کا کام نہیں دے سکتی۔

یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ اِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ یَقُصُّوۡنَ عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِیۡ ۙ فَمَنِ اتَّقٰی وَ اَصۡلَحَ فَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ﴿۳۵﴾

۳۵۔اے اولاد آدم! اگر تمہارے پاس خود تم ہی میں سے رسول آئیں جو تمہیں میری آیات سنایا کریں تو (اس کے بعد) جو تقویٰ اختیار کریں اور اصلاح کریں پس انہیں نہ کسی قسم کا خوف ہو گا اور نہ وہ محزون ہوں گے۔

وَ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا وَ اسۡتَکۡبَرُوۡا عَنۡہَاۤ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ﴿۳۶﴾

۳۶۔اور جو لوگ ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں اور ان سے تکبر کرتے ہیں وہی اہل جہنم ہیں،جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

فَمَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوۡ کَذَّبَ بِاٰیٰتِہٖ ؕ اُولٰٓئِکَ یَنَالُہُمۡ نَصِیۡبُہُمۡ مِّنَ الۡکِتٰبِ ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَآءَتۡہُمۡ رُسُلُنَا یَتَوَفَّوۡنَہُمۡ ۙ قَالُوۡۤا اَیۡنَ مَا کُنۡتُمۡ تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ؕ قَالُوۡا ضَلُّوۡا عَنَّا وَ شَہِدُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ اَنَّہُمۡ کَانُوۡا کٰفِرِیۡنَ﴿۳۷﴾

۳۷۔ اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو سکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ بہتان باندھے یا اس کی آیات کی تکذیب کرے؟ ایسے لوگوں کو وہ حصہ ملتا رہے گا جو ان کے حق میں لکھا ہے چنانچہ جب ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) ان کی قبض روح کے لیے آئیں گے تو کہیں گے: کہاں ہیں تمہارے وہ (معبود) جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے تھے؟ وہ کہیں گے: وہ ہم سے غائب ہو گئے اور اب وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ وہ واقعی کافر تھے۔

قَالَ ادۡخُلُوۡا فِیۡۤ اُمَمٍ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ مِّنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ فِی النَّارِ ؕ کُلَّمَا دَخَلَتۡ اُمَّۃٌ لَّعَنَتۡ اُخۡتَہَا ؕ حَتّٰۤی اِذَا ادَّارَکُوۡا فِیۡہَا جَمِیۡعًا ۙ قَالَتۡ اُخۡرٰىہُمۡ لِاُوۡلٰىہُمۡ رَبَّنَا ہٰۤؤُلَآءِ اَضَلُّوۡنَا فَاٰتِہِمۡ عَذَابًا ضِعۡفًا مِّنَ النَّارِ ۬ؕ قَالَ لِکُلٍّ ضِعۡفٌ وَّ لٰکِنۡ لَّا تَعۡلَمُوۡنَ﴿۳۸﴾

۳۸۔اللہ فرمائے گا: تم لوگ جن و انس کی ان قوموں کے ہمراہ داخل ہو جاؤ جو تم سے پہلے جہنم میں جا چکی ہیں، جب بھی۔کوئی جماعت جہنم میں داخل ہو گی اپنی ہم خیال جماعت پر لعنت بھیجے گی، یہاں تک کہ جب وہاں سب جمع ہو جائیں گے تو بعد والی جماعت پہلی کے بارے میں کہے گی: ہمارے رب! انہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا لہٰذا انہیں آتش جہنم کا دوگنا عذاب دے، اللہ فرمائے گا: سب کو دوگنا (عذاب) ملے گا لیکن تم نہیں جانتے۔

38۔ یہ ایک قاعدہ کلیہ ہے کہ جب کسی جماعت کو شکست اور ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ آپس میں ایک دوسرے پر اس شکست و ذلت کی ذمہ داری ڈالتے ہیں۔ روز قیامت بھی اہل جہنم اپنے ہم مذہب اور ہم مشرب لوگوں پر نفرین کریں گے اور ان پر دو گنا عذاب کی خواہش کریں گے۔ جواب ملے گا کہ تم سب کا عذاب دو گنا ہو گا، ایک عذاب اپنی گمراہی کا اور ایک عذاب دوسروں کے لیے گمراہی ورثہ میں چھوڑنے کا۔

وَ قَالَتۡ اُوۡلٰىہُمۡ لِاُخۡرٰىہُمۡ فَمَا کَانَ لَکُمۡ عَلَیۡنَا مِنۡ فَضۡلٍ فَذُوۡقُوا الۡعَذَابَ بِمَا کُنۡتُمۡ تَکۡسِبُوۡنَ﴿٪۳۹﴾

۳۹۔ان کی پہلی جماعت دوسری جماعت سے کہے گی: تمہیں ہم پر کوئی بڑائی حاصل نہ تھی؟ پس تم اپنے کیے کے بدلے عذاب چکھو۔

39۔ جس جماعت کو دو گنا عذاب دینے کا مطالبہ ہوا تھا اس جماعت کا بھی یہی مؤقف ہے کہ گمراہ ہونے اور دوسروں کے لیے گمراہی ورثہ میں چھوڑنے میں تم بھی ہماری طرح ہو۔ لہذا تم کو کوئی بڑائی ایسی حاصل نہیں ہے کہ تمہارا عذاب کم ہو اور ہمارا عذاب دو گنا ہو۔ لہذا تم بھی دو گنا عذاب چکھ لو۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا وَ اسۡتَکۡبَرُوۡا عَنۡہَا لَا تُفَتَّحُ لَہُمۡ اَبۡوَابُ السَّمَآءِ وَ لَا یَدۡخُلُوۡنَ الۡجَنَّۃَ حَتّٰی یَلِجَ الۡجَمَلُ فِیۡ سَمِّ الۡخِیَاطِ ؕ وَ کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُجۡرِمِیۡنَ﴿۴۰﴾

۴۰۔جنہوں نے ہماری آیات کی تکذیب کی اور ان سے تکبر کیا ہے ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے اور ان کا جنت میں جانا اس طرح محال ہے جس طرح سوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزرنا اور ہم مجرموں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں۔

40۔ جَمَلُ : اونٹ کو اور کشتی کے رسے کو کہتے ہیں۔ بعض اہل تحقیق کا یہ موقف ہے کہ سوئی کے ناکے اور اونٹ میں کوئی مناسبت نہیں ہے، لہٰذا یہاں جَمَلُ سے مراد رسّا لینا زیادہ مناسب ہے۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ اونٹ مراد لینا زیادہ مناسب ہے۔ کیونکہ یہاں سوئی کا ذکر کسی چیز کے سینے اور جوڑنے کے لیے نہیں ہو رہا کہ رسّا زیادہ مناسب ہو، بلکہ یہاں کافروں کے جنت میں جانے کو بعید از امکان بتانا مقصود ہے اس کے لیے سوئی کے سوراخ اور اونٹ (چھوٹا سا سوراخ اور بڑا وجود) زیادہ مناسب ہے۔