وَ قَاسَمَہُمَاۤ اِنِّیۡ لَکُمَا لَمِنَ النّٰصِحِیۡنَ ﴿ۙ۲۱﴾

۲۱۔ اور اس نے قسم کھا کر دونوں سے کہا: میں یقینا تمہارا خیر خواہ ہوں۔

فَدَلّٰىہُمَا بِغُرُوۡرٍ ۚ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَۃَ بَدَتۡ لَہُمَا سَوۡاٰتُہُمَا وَ طَفِقَا یَخۡصِفٰنِ عَلَیۡہِمَا مِنۡ وَّرَقِ الۡجَنَّۃِ ؕ وَ نَادٰىہُمَا رَبُّہُمَاۤ اَلَمۡ اَنۡہَکُمَا عَنۡ تِلۡکُمَا الشَّجَرَۃِ وَ اَقُلۡ لَّکُمَاۤ اِنَّ الشَّیۡطٰنَ لَکُمَا عَدُوٌّ مُّبِیۡنٌ﴿۲۲﴾

۲۲۔پھر فریب سے انہیں (اس طرف) مائل کر دیا، جب انہوں نے درخت کو چکھ لیا تو ان کے شرم کے مقامات ان کے لیے نمایاں ہو گئے اور وہ جنت کے پتے اپنے اوپر جوڑنے لگے اور ان کے رب نے انہیں پکارا: کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت سے منع نہیں کیا تھا؟ اور تمہیں بتایا نہ تھا کہ شیطان یقینا تمہارا کھلا دشمن ہے؟

22۔ انسان کو بہکانے کے لیے ابلیس کا سب سے پہلا حربہ انسان کے شرم کے مقامات کو عریاں کرنا تھا۔ اس مقصد کے لیے اس نے آدم علیہ السلام اور حوا کو شجرہ ممنوعہ کا پھل کھانے پر اکسایا کیونکہ اس پھل کے کھانے اور شرم کے مقامات کے نمایاں ہونے میں کوئی ربط ضرور تھا: فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَۃَ بَدَتۡ لَہُمَا سَوۡاٰتُہُمَا ۔ جب ان دونوں نے درخت (کے پھل) کو چکھ لیا تو ان پر ایک دوسرے کے اندام نہانی نمایاں ہو گئے۔ بائیبل میں آیا ہے: عورت (حوا) نے جو دیکھا کہ وہ درخت کھانے کے لیے اچھا اور آنکھوں کو خوشنما معلوم ہوتا ہے اور عقل بخشنے کے لیے خوب ہے تو اس کے پھل میں سے لیا اور کھایا اور اپنے شوہر کو بھی دیا۔ تب دونوں کی آنکھیں کھل گئیں اور انہیں معلوم ہوا کہ ہم ننگے ہیں اور انہوں نے انجیر کے پتوں کو سی کر اپنے لیے لنگیاں بنائیں۔ (بائیبل پیدائش باب3 آیات 6، 7)

آج ابلیس کے بیٹے حوا کی بیٹیوں کو بے لباس کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

قَالَا رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ اَنۡفُسَنَا ٜ وَ اِنۡ لَّمۡ تَغۡفِرۡ لَنَا وَ تَرۡحَمۡنَا لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ﴿۲۳﴾

۲۳۔ دونوں نے کہا: ہمارے رب! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔

قَالَ اہۡبِطُوۡا بَعۡضُکُمۡ لِبَعۡضٍ عَدُوٌّ ۚ وَ لَکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ مُسۡتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰی حِیۡنٍ﴿۲۴﴾

۲۴۔ فرمایا: ایک دوسرے کے دشمن بن کر نیچے اتر جاؤ اور زمین میں تمہارے لیے ایک مدت تک قیام اور سامان زیست ہو گا۔

قَالَ فِیۡہَا تَحۡیَوۡنَ وَ فِیۡہَا تَمُوۡتُوۡنَ وَ مِنۡہَا تُخۡرَجُوۡنَ﴿٪۲۵﴾

۲۵۔ فرمایا:زمین ہی میں تمہیں جینا اور وہیں تمہیں مرنا ہو گا اور (آخرکار) اسی میں سے تمہیں نکالا جائے گا۔

24 ۔ 25۔ اللہ تعالیٰ نے دو فیصلے انسان کے لیے لازمی قرار دیے ہیں: ایک یہ کہ انسان و ابلیس میں ہمیشہ عداوت رہے گی۔ دوسرا یہ کہ ارضی زندگی گزارنا انسان کے لیے لازمی ہو گا۔

یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ قَدۡ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡکُمۡ لِبَاسًا یُّوَارِیۡ سَوۡاٰتِکُمۡ وَ رِیۡشًا ؕ وَ لِبَاسُ التَّقۡوٰی ۙ ذٰلِکَ خَیۡرٌ ؕ ذٰلِکَ مِنۡ اٰیٰتِ اللّٰہِ لَعَلَّہُمۡ یَذَّکَّرُوۡنَ﴿۲۶﴾

۲۶۔ اے فرزندان آدم! ہم نے تمہارے لیے لباس نازل کیا جو تمہارے شرم کے مقامات کو چھپائے اور تمہارے لیے آرائش (بھی) ہو اور سب سے بہترین لباس تو تقویٰ ہے، یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے شاید یہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔

26۔ رِیۡشًا : یعنی لباس جہاں حفظِ حیا و عفت کا ذریعہ ہے وہاں یہ زیب و زینت بھی ہے۔ قدرت نے جہاں انسانی فطرت میں جمالیاتی ذوق ودیعت فرمایا ہے وہاں اس ذوق کی تکمیل کے لیے ضروری ہدایات بھی دی ہیں۔ یہاں سے استنباط کیا جا سکتا ہے کہ چونکہ اللہ نے لباس کو باعث زینت بنانے کو بطور احسان ذکر کیا ہے، لہٰذا اس زینت کو اختیار کرنا نہ صرف مباح اور جائز ہے بلکہ اعتدال کی حدود میں رہ کر اسے استعمال کرنا مستحسن ہے۔

یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ لَا یَفۡتِنَنَّکُمُ الشَّیۡطٰنُ کَمَاۤ اَخۡرَجَ اَبَوَیۡکُمۡ مِّنَ الۡجَنَّۃِ یَنۡزِعُ عَنۡہُمَا لِبَاسَہُمَا لِیُرِیَہُمَا سَوۡاٰتِہِمَا ؕ اِنَّہٗ یَرٰىکُمۡ ہُوَ وَ قَبِیۡلُہٗ مِنۡ حَیۡثُ لَا تَرَوۡنَہُمۡ ؕ اِنَّا جَعَلۡنَا الشَّیٰطِیۡنَ اَوۡلِیَآءَ لِلَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ﴿۲۷﴾

۲۷۔اے اولاد آدم!شیطان تمہیں کہیں اس طرح نہ بہکا دے جس طرح تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکلوایا اور انہیں بے لباس کیا تاکہ ان کے شرم کے مقامات انہیں دکھائے، بے شک شیطان اور اس کے رفقائے کار تمہیں ایسی جگہ سے دیکھ رہے ہوتے ہیں جہاں سے انہیں تم نہیں دیکھ سکتے، ہم نے شیاطین کو ان لوگوں کا آقا بنا دیا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔

27۔ انسان کو بہکانے کے لیے ابلیس کا سب سے پہلا حربہ انسان کے شرم کے مقامات تھے۔ چنانچہ سابقہ آیت 20 میں فرمایا: فَوَسۡوَسَ لَہُمَا الشَّیۡطٰنُ لِیُبۡدِیَ لَہُمَا مَا وٗرِیَ عَنۡہُمَا مِنۡ سَوۡاٰتِہِمَا شیطان نے ان دونوں کو بہکایا تاکہ ان دونوں کے شرم کے مقامات جو ان دونوں سے چھپائے گئے تھے نمایاں ہو جائیں۔ آیت میں یہ نہیں بتایا کہ پھل کھانے اور لباس کے اترنے میں کیا ربط تھا۔ کیا یہ جنسی خواہشات کی طرف اشارہ ہے کہ پھل کھانے سے جنسی خواہشات شروع ہو گئیں اور انسان کو گمراہ کرنے کے لیے ابلیس نے اس کو ذریعہ بنایا؟ یا پھل کھانے سے بقول بائیبل آدم علیہ السلام و حوا کی آنکھیں کھل گئیں؟ یا ان سے جنت کے لباس اتر گئے یا کوئی اور تکوینی امر تھا؟ یہ سب تحقیق طلب باتیں ہیں ان کی وضاحتیں قرآن و احادیث میں نہیں ملتیں۔ بہرحال اس آیت سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ شرم و حجاب ایک فطری امر ہے اور یہ تہذیبی و تمدنی تربیت کی وجہ سے نہیں ہے۔ آج کا ابلیس بھی حوا کی بیٹیوں کو بے حجاب بنانے کے لیے پوری شدت کے ساتھ تلا ہوا ہے۔

وَ اِذَا فَعَلُوۡا فَاحِشَۃً قَالُوۡا وَجَدۡنَا عَلَیۡہَاۤ اٰبَآءَنَا وَ اللّٰہُ اَمَرَنَا بِہَا ؕ قُلۡ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَاۡمُرُ بِالۡفَحۡشَآءِ ؕ اَتَقُوۡلُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ﴿۲۸﴾

۲۸۔اور جب یہ لوگ کسی بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسا کرتے پایا ہے اور اللہ نے ہمیں ایسا کرنے کا حکم دیا ہے، کہدیجئے:اللہ یقینا بے حیائی کا حکم نہیں دیتا، کیا تم اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کرتے ہو جن کا تمہیں علم ہی نہیں؟

قُلۡ اَمَرَ رَبِّیۡ بِالۡقِسۡطِ ۟ وَ اَقِیۡمُوۡا وُجُوۡہَکُمۡ عِنۡدَ کُلِّ مَسۡجِدٍ وَّ ادۡعُوۡہُ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ۬ؕ کَمَا بَدَاَکُمۡ تَعُوۡدُوۡنَ ﴿ؕ۲۹﴾

۲۹۔کہدیجئے: میرے رب نے مجھے انصاف کا حکم دیا ہے اور یہ کہ ہر عبادت کے وقت تم اپنی توجہ مرکوز رکھو اور اس کے مخلص فرمانبردار بن کر اسے پکارو، جس طرح اس نے تمہیں ابتدا میں پیدا کیا ہے اسی طرح پھر پیدا ہو جاؤ گے۔

فَرِیۡقًا ہَدٰی وَ فَرِیۡقًا حَقَّ عَلَیۡہِمُ الضَّلٰلَۃُ ؕ اِنَّہُمُ اتَّخَذُوا الشَّیٰطِیۡنَ اَوۡلِیَآءَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ وَ یَحۡسَبُوۡنَ اَنَّہُمۡ مُّہۡتَدُوۡنَ﴿۳۰﴾

۳۰۔ (اللہ) نے ایک گروہ کو ہدایت دے دی ہے اور دوسرے گروہ پر گمراہی پیوست ہو چکی ہے، ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر شیاطین کو اپنا آقا بنا لیا ہے اور (بزعم خود) یہ سمجھتے ہیں کہ ہدایت یافتہ ہیں۔

29 ۔ 30۔ سلسلۂ کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بیہودگی اور بے حیائی کا نہیں درج ذیل دستور کا حکم دیتا ہے:

عدل و انصاف قائم کرے۔عبادت میں اپنی پوری توجہ مبذول رکھیں۔ بے اعتنائی اور سہل انگاری کے ساتھ بجا لائی جانے والی عبادت بے جان ہوتی ہے۔ اللہ کو پکارو تو اس حالت میں پکارو کہ قولاً و عملاً صرف اسی کے دین کے پابند ہو اور فرمانبرداری میں خلوص رکھو کہ خالصتاً اللہ کی ذات کو لائق عبادت و اطاعت سمجھ کر اس کی فرمانبرداری کرو۔ کسی غیر اللہ کی رضامندی کا شائبہ تک اس کی فرمانبرداری میں نہ ہو۔آخرت کی حیات ابدی پر بھی ایمان رکھو کہ وہ اللہ جس نے تم کو ابتداء ہی میں نیستی سے پیدا کیا تو تم دو گروہوں میں بٹ گئے۔ایک ہدایت پر دوسرا گمراہی پر۔ قیامت کے دن بھی ایسا ہی ہو گا، ایک گروہ ہدایت یافتہ لوگ ہوں گے اور دوسرا گروہ گمراہ لوگ ہوں گے۔