بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

سورہ مائدہ

یہ سورہ رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات مبارکہ کے آخری دنوں میں نازل ہوا۔ اس لیے اس سورے کی آیات ناسخ ہیں، منسوخ نہیں ہیں۔ یہ سورہ اس وقت نازل ہوا جب رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک اسلامی حکومت کی تاسیس، ایک امت کی تربیت، ایک معاشرے کا قیام اور ایک دستور حیات پیش کر چکے تھے۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَوۡفُوۡا بِالۡعُقُوۡدِ ۬ؕ اُحِلَّتۡ لَکُمۡ بَہِیۡمَۃُ الۡاَنۡعَامِ اِلَّا مَا یُتۡلٰی عَلَیۡکُمۡ غَیۡرَ مُحِلِّی الصَّیۡدِ وَ اَنۡتُمۡ حُرُمٌ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَحۡکُمُ مَا یُرِیۡدُ﴿۱﴾

۱۔ اے ایمان والو! عہد و پیمان پورا کیا کرو، تمہارے لیے چرنے والے مویشی حلال کیے گئے ہیں سوائے ان کے جو (آئندہ) تمہیں بتا دیے جائیں گے مگر حالت احرام میں شکار کو حلال تصور نہ کرو، بیشک اللہ جیسا چاہتا ہے حکم دیتا ہے۔

1۔ یہاں عہد و پیمان کا اطلاق ہر قسم کے عہد و پیمان پر ہوتا ہے جو ہر انسان اور ہر قوم کو اپنی اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں پیش آتے ہیں۔ اگر کسی معاشرے میں عہد و پیمان کی پابندی ضروری نہ ہو، وہاں عدل و انصاف ملنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ انسان کے مدنی الطبع ہونے کی وجہ سے انفرادی زندگی گزارنا اس کے لیے ناممکن ہے اور اجتماعی زندگی انہیں معاہدوں سے عبارت ہے کہ انسان دوسروں کے ساتھ خرید و فروخت، مناکحہ اور مصالحت وغیرہ کے لیے عہد و پیمان باندھتے ہیں۔ اس قسم کے تمام معاہدے قرآن کی روسے واجب الوفا ہیں، خواہ وہ عہد فرد کا فرد کے ساتھ ہو یا ایک قوم کا کسی قوم کے ساتھ۔ حتیٰ اگر مسلمان کافروں کے ساتھ بھی کوئی معاہدہ کرتے ہیں تو اسے پورا کرنا ضروری ہے۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُحِلُّوۡا شَعَآئِرَ اللّٰہِ وَ لَا الشَّہۡرَ الۡحَرَامَ وَ لَا الۡہَدۡیَ وَ لَا الۡقَلَآئِدَ وَ لَاۤ آٰمِّیۡنَ الۡبَیۡتَ الۡحَرَامَ یَبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنۡ رَّبِّہِمۡ وَ رِضۡوَانًا ؕ وَ اِذَا حَلَلۡتُمۡ فَاصۡطَادُوۡا ؕ وَ لَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ اَنۡ صَدُّوۡکُمۡ عَنِ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اَنۡ تَعۡتَدُوۡا ۘ وَ تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡبِرِّ وَ التَّقۡوٰی ۪ وَ لَا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡاِثۡمِ وَ الۡعُدۡوَانِ ۪ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ﴿۲﴾ ۞ٙ

۲۔ اے ایمان والو! تم اللہ کی نشانیوں کی بے حرمتی نہ کرو اور نہ حرمت والے مہینے کی اور نہ قربانی کے جانور کی اور نہ ان جانوروں کی جن کے گلے میں پٹے باندھ دیے جائیں اور نہ ان لوگوں کی جو اپنے رب کے فضل اور خوشنودی کی تلاش میں بیت الحرام کی طرف جا رہے ہوں، ہاں! جب تم احرام سے باہر آ جاؤ تو شکار کر سکتے ہو اور جن لوگوں نے تمہیں مسجد الحرام جانے سے روکا تھا کہیں ان کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کر دے کہ تم بھی (ان پر) زیادتیاں کرنے لگو اور (یاد رکھو) نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور زیادتی (کے کاموں) میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کیا کرو اور اللہ سے ڈرو، اللہ کا عذاب یقینا بہت سخت ہے۔

شَعَآئِرَ : ہر چیز جو کسی مسلک و مذہب کی عظمت کی تاریخ سے وابستہ ہو اور اس میں اس نظریے کی پہچان ہو۔ اس اعتبار سے حرمت والے مہینے رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجۃ اور محرم اسلامی شعائر میں شامل ہیں، جن میں ہر قسم کی جنگ کرنا حرام ہے۔ اسی طرح قربانی کے لیے جو جانور پیش کیا جاتا ہے وہ بھی شعائر اللہ میں شامل ہے۔

وَ لَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ : کفار کی طرف سے مسجد الحرام کا راستہ بند کرنے کا غصہ کہیں اس بات کا محرک نہ بنے کہ تم بھی ان کے ساتھ زیادتی کرو اور ان پر تم راستہ بند کر دو۔

حُرِّمَتۡ عَلَیۡکُمُ الۡمَیۡتَۃُ وَ الدَّمُ وَ لَحۡمُ الۡخِنۡزِیۡرِ وَ مَاۤ اُہِلَّ لِغَیۡرِ اللّٰہِ بِہٖ وَ الۡمُنۡخَنِقَۃُ وَ الۡمَوۡقُوۡذَۃُ وَ الۡمُتَرَدِّیَۃُ وَ النَّطِیۡحَۃُ وَ مَاۤ اَکَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَکَّیۡتُمۡ ۟ وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَ اَنۡ تَسۡتَقۡسِمُوۡا بِالۡاَزۡلَامِ ؕ ذٰلِکُمۡ فِسۡقٌ ؕ اَلۡیَوۡمَ یَئِسَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ دِیۡنِکُمۡ فَلَا تَخۡشَوۡہُمۡ وَ اخۡشَوۡنِ ؕ اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا ؕ فَمَنِ اضۡطُرَّ فِیۡ مَخۡمَصَۃٍ غَیۡرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثۡمٍ ۙ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۳﴾

۳۔ تم پر حرام کیا گیا ہے مردار، خون، سور کا گوشت اور (وہ جانور) جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو اور وہ جو گلا گھٹ کر اور چوٹ کھا کر اور بلندی سے گر کر اور سینگ لگ کر مر گیا ہو اور جسے درندے نے کھایا ہو سوائے اس کے جسے تم (مرنے سے پہلے)ذبح کر لو اور جسے تھان پر ذبح کیا گیا ہو اور جوئے کے تیروں کے ذریعے تمہارا تقسیم کرنا (بھی حرام ہے)، یہ سب فسق ہیں، آج کافر لوگ تمہارے دین سے مایوس ہو چکے ہیں، پس تم ان (کافروں) سے نہیں مجھ سے ڈرو، آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا، پس جو شخص گناہ کی طرف مائل ہوئے بغیر بھوک کی وجہ سے (ان حرام چیزوں سے پرہیز نہ کرنے پر) مجبور ہو جائے تو اللہ یقینا بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔

3۔ کچھ حضرات نے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ ان احکام کے بیان سے اسلامی احکام کا بیان مکمل ہوا اور اس کے بعد کوئی حکم نازل نہیں ہوا۔ یہ مؤقف بھی اس لیے درست نہیں کیونکہ بخاری کی روایت کے مطابق آخری حکم آیہ ربا ہے اور بعض کے نزدیک آیہ کلالہ ہے اور دیگر بعض احکام اس آیت کے نزول کے بعد نازل ہوئے ہیں۔

حقیقت امر یہ ہے کہ کفار نے دین اسلام کی دعوت کو پھیلنے سے روکنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا لیکن انہیں ہمیشہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، ان کی آخری امید یہ تھی یہ دین اس کے بانی کے جانے سے ختم ہو جائے گا اور یہ دعوت اس کے داعی کی موت سے مٹ جائے گی کیونکہ اس کی کوئی اولاد نرینہ بھی نہیں ہے اور بہت سے سلاطین اور شان و شوکت والے بادشاہان کے موت کے منہ میں جانے کے بعد ان کے نام و نشان مٹ گئے اور ان کے قبر میں جاتے ہی ان کی حکومتوں کو زوال آیا اور جب رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بحکم خدا اپنے بعد اس دین کے محافظ کا تعارف کرایا تو اس دین کے لیے بقا کی ضمانت فراہم ہو گئی اور بقول صاحب المیزان ”یہ دین مرحلہ وجود سے مرحلہ بقا میں داخل ہو گیا۔“ یہاں سے کافر مایوس ہو گئے کہ یہ رسالت ایک فرد کے ساتھ منحصر نہ رہی، اب یہ دعوت ایک شخص کے مرنے سے نہیں مرتی۔

امامیہ نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ... ۔ غدیر خم کے موقع پر رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کے اعلان کے موقع پر نازل ہوئی۔ چنانچہ اصحاب رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں سے اس کے راوی درج ذیل ہیں: 1۔ زید بن ارقم (طبری: الولایۃ) 2۔ ابوسعید خدری (حافظ ابن مردویہ تفسیر ابن کثیر 2: 14) 3۔ابوہریرہ (تفسیر ابن کثیر 2:14) 4۔ جابر بن عبد اللہ انصاری (نطنزی۔ الخصائص)

یَسۡـَٔلُوۡنَکَ مَاذَاۤ اُحِلَّ لَہُمۡ ؕ قُلۡ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُ ۙ وَ مَا عَلَّمۡتُمۡ مِّنَ الۡجَوَارِحِ مُکَلِّبِیۡنَ تُعَلِّمُوۡنَہُنَّ مِمَّا عَلَّمَکُمُ اللّٰہُ ۫ فَکُلُوۡا مِمَّاۤ اَمۡسَکۡنَ عَلَیۡکُمۡ وَ اذۡکُرُوا اسۡمَ اللّٰہِ عَلَیۡہِ ۪ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ سَرِیۡعُ الۡحِسَابِ﴿۴﴾

۴۔لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کیا حلال کیا گیا ہے؟ کہدیجئے: تمہارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کی گئی ہیں اور وہ شکار بھی جو تمہارے لیے ان شکاری جانوروں نے پکڑا ہو جنہیں تم نے سدھا رکھا ہے اور انہیں تم شکار پر چھوڑتے ہو جس طریقے سے اللہ نے تمہیں سکھایا ہے اس کے مطابق تم نے انہیں سکھایا ہو تو جو شکار وہ تمہارے لیے پکڑیں اسے کھاؤ اور اس پر اللہ کا نام لے لیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو اللہ یقینا بہت جلد حساب لینے والا ہے۔

4۔اس آیت اور دوسری متعدد آیات سے ان تمام چیزوں میں صرف پاک چیزیں حلال قرار دی ہیں۔ اس سے تمام چیزوں کی جگہ تمام پاک چیزیں حلال ہو گئیں۔ پاک ہونے کی قید سے حلال چیزوں کا دائرہ تنگ ہو گیا۔ اب یہ سوال باقی رہا کہ پاک چیزوں کو ہم کیسے سمجھیں؟جو اب یہ ہے کہ اول تو ذوق سلیم اور فطری نظافت کے مطابق چیزیں پاک اور حلال ہیں۔ دوم یہ کہ شاید ہر جگہ ذوق سلیم اور فطری پاکیزگی بھی فیصلہ کرنے سے معروضی حالات کی وجہ سے قاصر رہے تو یہاں خود شریعت سے مدد لی جائے گی۔ چونکہ شرعی نصوص میں بھی حیوانات پرندے اور آبی حیوانات کے بارے میں کلیے قائم کیے گئے ہیں، جن کے مطابق پاک اور خبیث چیزوں میں تمیز ہو سکتی ہے۔

وَ مَا عَلَّمۡتُمۡ مِّنَ الۡجَوَارِحِ : وہ شکار بھی حلال ہے جو تمہارے سدھائے ہوئے شکاری جانوروں نے پکڑا ہو۔اس کا مطلب یہ ہے کہ سدھائے ہوئے کتے کو تم نے اللہ کا نام لے کر چھوڑا اور اس نے حلال گوشت جانور کو پکڑ لیا اور تمہارے ہاتھ آنے سے پہلے وہ جانور مر گیا تو وہ تمہارے لیے حلال ہے اور یہی ذبح شرعی شما رہو گا۔ فقہ جعفری کے مطابق یہ خصوصیت اور یہ حکم صرف کتے کے پکڑے ہوئے شکار کے لیے ہے، دوسرے شکاری پرندوں کے پکڑے ہوئے شکار اگر زندہ ہاتھ میں آجائیں اور ذبح شرعی ہو جائے تو حلال ہیں، ورنہ حرام ہیں اور اس پر ائمہ علیہم السلام کی احادیث کے ساتھ خود آیت کا لفظ مُکَلِّبِیۡنَ دلیل ہے کیونکہ مکلب کتے کو شکار کی تعلیم دینے کو کہتے ہیں، لہذا آیت کی رو سے بھی یہ حکم صرف تربیت یافتہ کتے کے ساتھ مخصوص ہے۔

اَلۡیَوۡمَ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُ ؕ وَ طَعَامُ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ حِلٌّ لَّکُمۡ ۪ وَ طَعَامُکُمۡ حِلٌّ لَّہُمۡ ۫ وَ الۡمُحۡصَنٰتُ مِنَ الۡمُؤۡمِنٰتِ وَ الۡمُحۡصَنٰتُ مِنَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ اِذَاۤ اٰتَیۡتُمُوۡہُنَّ اُجُوۡرَہُنَّ مُحۡصِنِیۡنَ غَیۡرَ مُسٰفِحِیۡنَ وَ لَا مُتَّخِذِیۡۤ اَخۡدَانٍ ؕ وَ مَنۡ یَّکۡفُرۡ بِالۡاِیۡمَانِ فَقَدۡ حَبِطَ عَمَلُہٗ ۫ وَ ہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ ٪﴿۵﴾

۵۔ آج تمہارے لیے تمام پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئی ہیں اور اہل کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال اور تمہارا کھانا ان کے لیے حلال ہے اور پاکدامن مومنہ عورتیں نیز جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی ہے ان کی پاکدامن عورتیں بھی (حلال کی گئی ہیں) بشرطیکہ ان کا مہر دے دو اور ان کی عفت کے محافظ بنو، چوری چھپے آشنائیاں یا بدکاری نہ کرو اور جو کوئی ایمان سے منکر ہو، یقینا اس کا عمل ضائع ہو گیا اور آخرت میں وہ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گا۔

5۔ اہل کتاب کا طعام حلال ہے جس میں ان کا ذبیحہ بھی شامل ہے۔ اکثر غیر امامیہ ان کے ذبیحہ کو حلال کہتے ہیں۔ فقہ جعفری کے نزدیک ان کا ذبیحہ حلال نہیں ہے۔ باقی طعام میں فقہ جعفری کے فقہاء کے دو نظریے ہیں۔ ایک یہ کہ اہل کتاب نجس ہیں، لہٰذا اگر مرطوب کھانے کو اہل کتاب نے ہاتھ لگایا ہو تو وہ نجس ہے۔ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ اہل کتاب پاک ہیں، ذبیحہ کے علاوہ ان کے باقی طعام حلال ہیں۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا قُمۡتُمۡ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغۡسِلُوۡا وُجُوۡہَکُمۡ وَ اَیۡدِیَکُمۡ اِلَی الۡمَرَافِقِ وَ امۡسَحُوۡا بِرُءُوۡسِکُمۡ وَ اَرۡجُلَکُمۡ اِلَی الۡکَعۡبَیۡنِ ؕ وَ اِنۡ کُنۡتُمۡ جُنُبًا فَاطَّہَّرُوۡا ؕ وَ اِنۡ کُنۡتُمۡ مَّرۡضٰۤی اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ اَوۡ جَآءَ اَحَدٌ مِّنۡکُمۡ مِّنَ الۡغَآئِطِ اَوۡ لٰمَسۡتُمُ النِّسَآءَ فَلَمۡ تَجِدُوۡا مَآءً فَتَیَمَّمُوۡا صَعِیۡدًا طَیِّبًا فَامۡسَحُوۡا بِوُجُوۡہِکُمۡ وَ اَیۡدِیۡکُمۡ مِّنۡہُ ؕ مَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیَجۡعَلَ عَلَیۡکُمۡ مِّنۡ حَرَجٍ وَّ لٰکِنۡ یُّرِیۡدُ لِیُطَہِّرَکُمۡ وَ لِیُتِمَّ نِعۡمَتَہٗ عَلَیۡکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ﴿۶﴾

۶۔ اے ایمان والو! جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لیا کرو نیز اپنے سروں کا اور ٹخنوں تک پاؤں کا مسح کرو، اگر تم حالت جنابت میں ہو تو پاک ہو جاؤ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی رفع حاجت کر کے آیا ہو یا تم نے عورتوں کو ہاتھ لگایا (ہمبستری کی) ہو پھر تمہیں پانی میسر نہ آئے تو پاک مٹی سے تیمم کرو پھر اس سے تم اپنے چہروں اور ہاتھوں کا مسح کرو، اللہ تمہیں مشقت میں ڈالنا نہیں چاہتا بلکہ وہ تمہیں پاک اور تم پر اپنی نعمت مکمل کرنا چاہتا ہے شاید تم شکر کرو۔

6۔ ”ہاتھ“ کہنے سے معلوم نہیں ہوتا کہ کہاں تک دھونا ہے، کیونکہ کلائی تک کو بھی ہاتھ کہا جاتا ہے۔ اس لیے حد کو بیان کیا کہ کہنیوں تک دھونا ہے، نہ زیادہ نہ کم۔ لہٰذا یہ مغسول کی حد بندی ہے، غسل (دھونے) کی نہیں۔ یہاں دھونے کی ابتداء اور انتہا کا ذکر نہیں ہے۔ اس کا تعین سنت سے ہوتا ہے۔ وَ امۡسَحُوۡا بِرُءُوۡسِکُمۡ یعنی پورے سر کا نہیں ایک حصے کا مسح کرو۔ روایت ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا: ایک حصہ کہاں سے سمجھا جاتا ہے؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا : لمکان الباء یعنی باء سے جو رُءُوۡسِکُمۡ میں ہے۔ آیت کا ذمہ دار ترجمہ یہ بنتا ہے:مسح کرو اپنے سروں کا اور اپنے پاؤں کا بھی ٹخنوں تک۔ اس جملے کی دو قرائتیں ہیں: اَرۡجُلَکُمۡ میں لام پر زبر اور زیر کے ساتھ۔ دونوں قرائتوں کی بنا پر رُءُوۡسِکُمۡ کے محل یا لفظ پر عطف ہے۔ لہٰذا دونوں قرائتوں کی بنا پر مسح رجلین ثابت ہے۔ چنانچہ صاحب تفسیر المنار کہتے ہیں: و الظاھر انہ عطف علی الرأس ای و امسحوا بارجلکم الی الکعبین ۔ اسی لیے ابن حزم اور طحاوی کو یہ مؤقف اختیار کرنا پڑا کہ مسح کا حکم منسوخ ہوا ہے۔ (المنار 6: 228)

غیر امامیہ کے ہاں مسح علی الخفین ایک مسلمہ امر ہے۔ روایت میں آیا ہے کہ اصحاب نے کہا: ہم نے خود رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مسح علی الخفین کرتے دیکھا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: نزول سورہ مائدہ سے پہلے دیکھا یا بعد میں؟ انہوں نے کہا: یہ ہم نہیں جانتے۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا : ولکنی ادری ”لیکن میں جانتا ہوں کہ رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے موزوں پر مسح کرنا سورﮤ مائدہ کے نزول کے بعد ترک کر دیا تھا۔ “

وَ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَۃَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ وَ مِیۡثَاقَہُ الَّذِیۡ وَاثَقَکُمۡ بِہٖۤ ۙ اِذۡ قُلۡتُمۡ سَمِعۡنَا وَ اَطَعۡنَا ۫ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ﴿۷﴾

۷۔ اور اس نعمت کو یاد کرو جو اللہ نے تمہیں عطا کی ہے اور اس عہد و پیمان کو بھی جو اللہ نے تم سے لے رکھا ہے،جب تم نے کہا تھا: ہم نے سنا اور مانا اور اللہ سے ڈرو،بے شک اللہ دلوں کا حال خوب جانتا ہے۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ لِلّٰہِ شُہَدَآءَ بِالۡقِسۡطِ ۫ وَ لَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعۡدِلُوۡا ؕ اِعۡدِلُوۡا ۟ ہُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی ۫ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ﴿۸﴾

۸۔ اے ایمان والو! اللہ کے لیے بھرپور قیام کرنے والے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہاری بے انصافی کا سبب نہ بنے، (ہر حال میں) عدل کرو! یہی تقویٰ کے قریب ترین ہے اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔

8۔ متعدد آیات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام عدل و انصاف کو بنیادی انسانی حقوق میں سے قرار دیتا ہے۔ اس میں مذہب، نسل وغیرہ کا کوئی دخل نہیں ہے۔ اس آیت میں مسلمانوں کو یہ حکم ملا ہے کہ دشمن کے ساتھ بھی عدل و انصاف سے پیش آیا کرو۔ کیونکہ جہاں وہ دشمن ہے وہاں انسان بھی ہے، بلکہ پہلے انسان اور بعد میں دشمن ہے۔ چنانچہ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے: اما اخ لک فی الدین و اما نظیرک فی الخلق ۔ (نہج البلاغۃ) یا تو وہ تمہارا برادر دینی ہے یا تجھ جیسی مخلوق۔

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۙ لَہُمۡ مَّغۡفِرَۃٌ وَّ اَجۡرٌ عَظِیۡمٌ﴿۹﴾

۹۔ اللہ نے ایمان والوں اور نیک اعمال بجا لانے والوں سے ان کے لیے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کر رکھا ہے۔

وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ الۡجَحِیۡمِ﴿۱۰﴾

۱۰۔ اور جنہوں نے کفر اختیار کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا وہ جہنمی ہیں۔

9۔10۔ اگر ایمان کے ساتھ عمل صالح انسان بجا لاتا ہے اور اس کے ساتھ گناہ کا بھی ارتکاب کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ مغفرت اور درگزر فرمائے گا اور اجر عظیم بھی عنایت فرمائے گا اور اگر تکذیب آیات کے ساتھ کفر اختیار کرتا ہے تو انہیں ضرور جہنم میں جانا ہے۔ اس سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ اگر ایک شخص کفر کرتا ہے،لیکن تکذیب آیات کی نوبت نہیں آتی، مثلاً وہ اسلام سے بالکل بے خبر ہے اور اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کرنا اس کے لیے ناممکن تھا تو ایسے لوگ کافر ضرور ہیں مگر تکذیب آیات کی نوبت نہیں آئی۔ ایسے لوگوں کو مستضعف کہتے ہیں اور یہ لوگ جہنمی نہیں ہیں۔