بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

حٰمٓ ۚ﴿۱﴾

۱۔ حا، میم۔

تَنۡزِیۡلُ الۡکِتٰبِ مِنَ اللّٰہِ الۡعَزِیۡزِ الۡحَکِیۡمِ﴿۲﴾

۲۔ اس کتاب کا نزول بڑے غالب آنے والے، حکمت والے اللہ کی طرف سے ہے۔

1۔2 کفار مکہ کے اس الزام کو رد کرنے کے لیے کہ قرآن خود محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تصنیف ہے، مکی سورتوں میں عموماً اور حوامیم (جن سورتوں کی ابتدا حٰمٓ سے ہوتی ہے) میں خصوصاً اس بات کو مکرر بیان فرمایا جا رہا ہے کہ یہ قرآن خدائے دانا و حکیم کا نازل کردہ ہے۔

اِنَّ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ لَاٰیٰتٍ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ؕ﴿۳﴾

۳۔ آسمانوں اور زمین میں ایمان والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔

وَ فِیۡ خَلۡقِکُمۡ وَ مَا یَبُثُّ مِنۡ دَآبَّۃٍ اٰیٰتٌ لِّقَوۡمٍ یُّوۡقِنُوۡنَ ۙ﴿۴﴾

۴۔ اور تمہاری خلقت میں اور ان جانوروں میں جنہیں اللہ نے پھیلا رکھا ہے یقین رکھنے والی قوم کے لیے نشانیاں ہیں۔

وَ اخۡتِلَافِ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ وَ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآءِ مِنۡ رِّزۡقٍ فَاَحۡیَا بِہِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِہَا وَ تَصۡرِیۡفِ الرِّیٰحِ اٰیٰتٌ لِّقَوۡمٍ یَّعۡقِلُوۡنَ﴿۵﴾

۵۔ اور رات اور دن کی آمد و رفت میں نیز اس رزق میں جسے اللہ آسمان سے نازل فرماتا ہے پھر زمین کو اس سے زندہ کر دیتا ہے اس کے مردہ ہونے کے بعد اور ہواؤں کے بدلنے میں عقل رکھنے والی قوم کے لیے نشانیاں ہیں۔

3 تا 5 ان آیات سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اللہ کی نشانیوں سے معرفت خدا حاصل کرنے کے لیے اہلیت درکار ہوتی ہے۔ وہ اہلیت تین چیزوں میں منحصر ہے : ایمان، یقین اور عقل۔

تِلۡکَ اٰیٰتُ اللّٰہِ نَتۡلُوۡہَا عَلَیۡکَ بِالۡحَقِّ ۚ فَبِاَیِّ حَدِیۡثٍۭ بَعۡدَ اللّٰہِ وَ اٰیٰتِہٖ یُؤۡمِنُوۡنَ﴿۶﴾

۶۔ یہ اللہ کی آیات ہیں جنہیں ہم آپ کو برحق سنا رہے ہیں، پھر یہ اللہ اور اس کی آیات کے بعد کس بات پر ایمان لائیں گے؟

6۔ آفاق اور انفس میں موجود واضح نشانیوں اور انبیاء علیہم السلام کے ذریعے حجت پوری کرنے پر بھی وہ ایمان نہیں لاتے تو حقائق بیا ن کرنے کا اور کون سا ذریعہ اور دلیل و حجت کا کون سا اسلوب باقی رہ جاتا ہے کہ انسان اس پر ایمان لائے؟

وَیۡلٌ لِّکُلِّ اَفَّاکٍ اَثِیۡمٍ ۙ﴿۷﴾

۷۔ تباہی ہے ہر جھوٹے گنہگار کے لیے،

اَفَّاکٍ صیغہ مبالغہ ہے۔ جس کا مشغلہ جھوٹ بولنا ہو اور ساتھ دیگر گناہوں میں غرق ہو۔ ایسے لوگ اللہ کی آیات کے مقابلے میں تکبر کے ساتھ پیش آئیں گے۔ حق تو یہ تھا کہ آیات الٰہی کے سامنے تواضع کے ساتھ پیش آتے، لیکن یہ تکبر کے ساتھ اپنے افکار پر ضد بھی کرتے ہیں۔ اس قسم کے لوگ قابل ہدایت نہیں ہوتے۔

یَّسۡمَعُ اٰیٰتِ اللّٰہِ تُتۡلٰی عَلَیۡہِ ثُمَّ یُصِرُّ مُسۡتَکۡبِرًا کَاَنۡ لَّمۡ یَسۡمَعۡہَا ۚ فَبَشِّرۡہُ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ﴿۸﴾

۸۔ وہ اللہ کی آیات کو جو اس کے سامنے پڑھی جاتی ہیں سن تو لیتا ہے پھر تکبر کے ساتھ ضد کرتا ہے گویا اس نے انہیں سنا ہی نہیں، سو اسے دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دیجئے۔

وَ اِذَا عَلِمَ مِنۡ اٰیٰتِنَا شَیۡئَۨا اتَّخَذَہَا ہُزُوًا ؕ اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ؕ﴿۹﴾

۹۔ اور جب اسے ہماری آیات میں سے کچھ کا پتہ چلتا ہے تو ان کی ہنسی اڑاتا ہے، ایسے لوگوں کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔

9۔ اول تو یہ لوگ کوشش کرتے ہیں کہ ہماری آیات ان کی دانست میں ہی نہیں آئیں۔ اگر کسی آیت کی طرف اتفاقاً متوجہ ہو جاتے ہیں تو اس کا مذاق اڑا کر ٹال دیتے ہیں۔ آیات الٰہی کے ساتھ اہانت کرنے والوں کے لیے اہانت آمیز عذاب ہو گا۔

مِنۡ وَّرَآئِہِمۡ جَہَنَّمُ ۚ وَ لَا یُغۡنِیۡ عَنۡہُمۡ مَّا کَسَبُوۡا شَیۡئًا وَّ لَا مَا اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اَوۡلِیَآءَ ۚ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ﴿ؕ۱۰﴾

۱۰۔ ان کے پیچھے جہنم ہے اور جو کچھ ان کا کیا دھرا ہے وہ انہیں کچھ بھی فائدہ نہ دے گا اور نہ وہ جنہیں اللہ کے سوا انہوں نے کارساز بنایا تھا اور ان کے لیے تو بڑا عذاب ہے۔

10۔ وَرَآءَ اَمَامَ کے مقابلے میں سمجھا جائے تو وہی ترجمہ ہو گا جو متن میں اختیار کیا ہے۔ یعنی پیچھے۔ اگر اس لفظ کو موارات سے ماخوذ سمجھا جائے تو اس کے معنی ہوں گے: آدمی کی نظر سے اوجھل ہو، خواہ آگے ہو یا پیچھے۔ اس صورت میں آیت کا ترجمہ یہ بنے گا:ان کی اوٹ میں جہنم ہے، جہاں ان کے وہ اعمال جو غیر اللہ کی قربت کے لیے انجام دیے ہیں، ان کو فائدہ نہیں دیں گے، نہ وہ لوگ ان کو فائدہ دیں گے جن کو ان لوگوں نے ولی بنا رکھا ہے۔ ولی یعنی اپنا آقا بنا رکھا ہے۔