بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا وَ بَثَّ مِنۡہُمَا رِجَالًا کَثِیۡرًا وَّ نِسَآءً ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡ تَسَآءَلُوۡنَ بِہٖ وَ الۡاَرۡحَامَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیۡکُمۡ رَقِیۡبًا﴿۱﴾

۱۔ اے لوگو!اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے بکثرت مرد و عورت (روئے زمین پر) پھیلا دیے اور اس اللہ کا خوف کرو جس کا نام لے کر ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قرابتداروں کے بارے میں بھی (پرہیز کرو)، بے شک تم پر اللہ نگران ہے۔

خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ : تمام انسانوں کا تعلق ایک ہی اصل اور ایک ہی حقیقت سے ہے۔ یہ تصور ان تمام المیوں کا حل پیش کرتا ہے جو طبقاتی، نژادی، علاقائی، لسانی، اور رنگ و نسل کی تفریق سے انسانیت کو درپیش ہیں۔

وَ اٰتُوا الۡیَتٰمٰۤی اَمۡوَالَہُمۡ وَ لَا تَتَبَدَّلُوا الۡخَبِیۡثَ بِالطَّیِّبِ ۪ وَ لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمۡوَالَہُمۡ اِلٰۤی اَمۡوَالِکُمۡ ؕ اِنَّہٗ کَانَ حُوۡبًا کَبِیۡرًا﴿۲﴾

۲۔ اور یتیموں کا مال ان کے حوالے کرو، پاکیزہ مال کو برے مال سے نہ بدلو اور ان کا مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھایا کرو، ایسا کرنا یقینا بہت بڑا گناہ ہے۔

وَ اِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا تُقۡسِطُوۡا فِی الۡیَتٰمٰی فَانۡکِحُوۡا مَا طَابَ لَکُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ مَثۡنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ ۚ فَاِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا تَعۡدِلُوۡا فَوَاحِدَۃً اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ؕ ذٰلِکَ اَدۡنٰۤی اَلَّا تَعُوۡلُوۡا ؕ﴿۳﴾

۳۔ اور اگر تم لوگ اس بات سے خائف ہو کہ یتیم (لڑکیوں) کے بارے میں انصاف نہ کر سکو گے تو جو دوسری عورتیں تمہیں پسند آئیں ان میں سے دو دو، تین تین یا چار چار سے نکاح کر لو، اگر تمہیں خوف ہو کہ ان میں عدل نہ کر سکو گے تو ایک ہی عورت یا لونڈی جس کے تم مالک ہو (کافی ہے)، یہ ناانصافی سے بچنے کی قریب ترین صورت ہے۔

3۔ خواہ مرد ہو یا عورت، ازدواجی زندگی ایک انسانی حق ہے۔ لیکن عورت اس حق کی زیادہ محتاج ہے۔ کیونکہ ازدواجی زندگی میں مرد کے مادی اور جنسی تقاضے زیادہ اور انسانی تقاضے کم ہوتے ہیں۔ جب کہ عورت کے انسانی تقاضے زیادہ اور مادی تقاضے کم ہوتے ہیں۔ مرد ازدواجی زندگی سے محروم ہونے کی صورت میں بھی اپنے نصف تقاضے نا جائز ذرائع سے پورے کر سکتا ہے، جب کہ عورت ازدواجی زندگی سے محروم ہونے کی صورت میں اپنے فطری اور انسانی تقاضے نا جائز ذرائع سے پورے نہیں کر سکتی۔ لہٰذا شوہر داری کرنا، مرد کے زیر سایہ رہنا، جائز اور قانونی بچوں کی ماں بننا اور ایک عائلی نظام سے منسلک رہنا، عورت کے انسانی حقوق میں سے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اعداد و شمار کے مطابق اگرچہ پیدائش کے اعتبار سے مرد و زن برابر ہوتے ہیں، لیکن جب یہی مرد و زن سن بلوغت کو پہنچتے ہیں، یعنی ازدواجی زندگی کے قابل ہوتے ہیں تو ازدواج کے قابل مردوں سے ازدواج کے قابل عورتیں کہیں زیادہ ہوتی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ازدواج کے قابل عورتوں کو، جو تعداد میں ازدواج کے قابل مردوں سے زیادہ ہیں، ان کے انسانی حقوق تعدد زوجات کے علاوہ کس طرح مل سکتے ہیں؟ برٹرینڈرسل یہاں ایک عجیب تجویز دیتا ہے: تعدد زوجات ممنوع ہونے کی صورت میں بہت سی عورتیں بے شوہر اور بے اولاد رہ جاتی ہیں، ان کے لیے تجویز یہ ہے کہ وہ مردوں کو شکار کریں اور اپنے لیے اولاد پیدا کریں۔ اس صورت میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان بے سرپرست ماؤں اور بے پدر بچوں کی سرپرستی کون کرے گا؟ برٹرینڈرسل تجویز دیتا ہے: حکومت شوہر اور باپ کی جگہ پر کرے۔ (نظام حقوق زن ص 381) دیکھا آپ نے مغربی ذہن، صف اول کا مفکر ایک نہایت ہی اہم انسانی حق کے لیے کیا حل پیش کرتا ہے۔ کیا مغربی انسان، مہر پدر اور امن و سکون شوہر سے آشنا ہی نہیں ہے؟

وَ اٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِہِنَّ نِحۡلَۃً ؕ فَاِنۡ طِبۡنَ لَکُمۡ عَنۡ شَیۡءٍ مِّنۡہُ نَفۡسًا فَکُلُوۡہُ ہَنِیۡٓــًٔا مَّرِیۡٓــًٔا﴿۴﴾

۴۔ اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دیا کرو، ہاں! اگر وہ کچھ حصہ اپنی خوشی سے معاف کر دیں تو اسے خوشگواری سے بلا کراہت کھا سکتے ہو۔

نِحۡلَۃً : اس عطیہ کو کہتے ہیں جو قیمت اور معاوضہ نہ ہو۔ حکم یہ ہے کہ مہر کو عطیہ کے طور پر دے دو تاکہ مرد کی طرف سے خواستگاری اور خواہش کی سچائی کی ایک علامت اور دلیل بنے۔ چونکہ عورت عشق و محبت کی منزل پر ہوتی ہے اور مرد خواہش و تمنا کی منزل پر۔

وَ لَا تُؤۡتُوا السُّفَہَآءَ اَمۡوَالَکُمُ الَّتِیۡ جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمۡ قِیٰمًا وَّ ارۡزُقُوۡہُمۡ فِیۡہَا وَ اکۡسُوۡہُمۡ وَ قُوۡلُوۡا لَہُمۡ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا﴿۵﴾

۵۔ اور اپنے وہ مال جن پر اللہ نے تمہارا نظام زندگی قائم کر رکھا ہے بیوقوفوں کے حوالے نہ کرو (البتہ) ان میں سے انہیں کھلاؤ اور پہناؤ اور ان سے اچھے پیرائے میں گفتگو کرو۔

وَ ابۡتَلُوا الۡیَتٰمٰی حَتّٰۤی اِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ ۚ فَاِنۡ اٰنَسۡتُمۡ مِّنۡہُمۡ رُشۡدًا فَادۡفَعُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ اَمۡوَالَہُمۡ ۚ وَ لَا تَاۡکُلُوۡہَاۤ اِسۡرَافًا وَّ بِدَارًا اَنۡ یَّکۡبَرُوۡا ؕ وَ مَنۡ کَانَ غَنِیًّا فَلۡیَسۡتَعۡفِفۡ ۚ وَ مَنۡ کَانَ فَقِیۡرًا فَلۡیَاۡکُلۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ؕ فَاِذَا دَفَعۡتُمۡ اِلَیۡہِمۡ اَمۡوَالَہُمۡ فَاَشۡہِدُوۡا عَلَیۡہِمۡ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ حَسِیۡبًا﴿۶﴾

۶۔ اور یتیموں کو آزماتے رہو یہاں تک کہ یہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں پھر اگر تم ان میں رشد عقلی پاؤ تو ان کے اموال ان کے حوالے کر دو اور اس خوف سے کہ وہ بڑے ہو جائیں گے (اور مال کا مطالبہ کریں گے) فضول اور جلدی میں ان کا مال کھا نہ جانا، اگر (یتیم کا سرپرست ) مالدار ہے تو وہ (کچھ کھانے سے) اجتناب کرے اور اگر غریب ہے تو معمول کے مطابق کھا سکتا ہے، پھر جب تم ان کے اموال ان کے حوالے کرو تو ان پر گواہ ٹھہرایا کرو اور حقیقت میں حساب لینے کے لیے تو اللہ ہی کافی ہے ۔

5۔ 6۔ مال کے بارے میں اسلام کا تصور اس طرح ہے کہ مالک حقیقی اللہ ہے اور پوری امت کو اللہ کی طرف سے اس مال پر نظارت کا حق حاصل ہے۔ وَ اَنۡفِقُوۡا مِمَّا جَعَلَکُمۡ مُّسۡتَخۡلَفِیۡنَ (57: 7) یعنی اس کو انفرادی تصرف میں دینے کے لیے فرد کی صلاحیت دیکھیں گے۔ اگر فرد میں عقل و رشد کے اعتبار سے معقول تصرف کرنے کی صلاحیت نہیں تو اس مال کی پوری امت امین ہے۔ ایسے فرد کے تصرف میں مال نہیں دیا جائے گا۔

لِلرِّجَالِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا تَرَکَ الۡوَالِدٰنِ وَ الۡاَقۡرَبُوۡنَ ۪ وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا تَرَکَ الۡوَالِدٰنِ وَ الۡاَقۡرَبُوۡنَ مِمَّا قَلَّ مِنۡہُ اَوۡ کَثُرَ ؕ نَصِیۡبًا مَّفۡرُوۡضًا﴿۷﴾

۷۔اور جو مال ماں باپ اور قریبی رشتے دار چھوڑ جائیں اس میں مردوں کا ایک حصہ ہے اور (ایسا ہی) جو مال ماں باپ اور قریبی رشتے دار چھوڑ جائیں اس میں تھوڑا ہو یا بہت عورتوں کا بھی ایک حصہ ہے، یہ حصہ ایک طے شدہ امر ہے ۔

7۔ اس آیت میں درج ذیل قوانین موجود ہیں:

1۔ والدین اور قرابتداروں میں سے کوئی بھی ارث سے محروم نہ رہے گا، جیسا کہ دور جاہلیت میں یہ فلسفہ پیش کیا جاتا تھا کہ بچے چونکہ دشمن کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور دفاع میں بھی حصہ نہیں لے سکتے اس لیے چھوٹے بچوں کو ارث نہیں دیا جاتا۔ مگر اسلام بچوں کی دفاعی اعتبار سے قیمت نہیں لگاتا بلکہ ان کے انسانی مقام کے اعتبار سے انہیں وقعت دیتا ہے۔ 2۔ میراث صرف مردوں کا حق نہیں بلکہ میراث میں عورتوں کا بھی حصہ ہے۔ لہٰذا اگر کوئی عورت مرد کے ساتھ ایک ہی طبقے میں ہو تو وہ ارث سے محروم نہیں رہتی ہے۔ مثلاً بیٹے کے ساتھ بیٹی کو بھائی کے ساتھ بہن کو چچا کے ساتھ پھوپھی کو حسب مراتب ارث ملے گا۔ 3۔ میراث کتنی ہی کم ہو، تقسیم ہونی چاہیے۔ مال متروکہ تھوڑا ہونے کی وجہ سے جواز نہیں بنتا کہ اسے تقسیم نہ کیا جائے۔ میراث کے یہ قوانین عرب جاہلیت کے اعتبار سے بالکل غیرمانوس تھے اور قرابتداروں میں سے کئی ایک کو میراث سے محروم رکھنا ان کے ہاں ایک عام سی بات تھی۔ اسلام نے یکسر ان غیر انسانی قوانین کو بدل دیا۔ 4۔ اس آیہ شریفہ کی عمومیت میں رسالتمآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ترکہ بھی شامل ہے۔

وَ اِذَا حَضَرَ الۡقِسۡمَۃَ اُولُوا الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنُ فَارۡزُقُوۡہُمۡ مِّنۡہُ وَ قُوۡلُوۡا لَہُمۡ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا﴿۸﴾

۸۔ اور جب (میراث کی) تقسیم کے وقت قریب ترین رشتے دار یتیم اور مسکین موجود ہوں تو اس (میراث) میں سے انہیں بھی کچھ دیا کرو اور ان سے اچھے انداز میں بات کرو ۔

8۔ یہاں خطاب میت کے ولی اور ورثاء سے ہے کہ میراث کی تقسیم کے وقت جو رشتہ دار اور غریب و مسکین اور یتیم بچے موجود ہوں تو اگرچہ از روئے قانون میراث میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے، لیکن از روئے شفقت تم خود اپنی طرف سے انہیں کچھ دے دیا کرو۔

وَ لۡیَخۡشَ الَّذِیۡنَ لَوۡ تَرَکُوۡا مِنۡ خَلۡفِہِمۡ ذُرِّیَّۃً ضِعٰفًا خَافُوۡا عَلَیۡہِمۡ ۪ فَلۡیَتَّقُوا اللّٰہَ وَ لۡیَقُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِیۡدًا﴿۹﴾

۹۔ اور لوگوں کو اس بات پر خوف لاحق رہنا چاہیے کہ اگر وہ خود اپنے پیچھے بے بس اولاد چھوڑ جاتے جن کے بارے میں فکر لاحق ہوتی (کہ ان کا کیا بنے گا) تو انہیں چاہیے کہ اللہ سے ڈریں اور سنجیدہ باتیں کریں ۔

وَ لۡیَقُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِیۡدًا : اور مال و میراث سے محرومی کے ساتھ تم ان سے دل شکنی کی باتیں نہ کیا کرو۔ مال سے محرومیت کی صورت میں معمولی سی بد کلامی دل میں کینہ اور عداوت پیدا کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ یَاۡکُلُوۡنَ اَمۡوَالَ الۡیَتٰمٰی ظُلۡمًا اِنَّمَا یَاۡکُلُوۡنَ فِیۡ بُطُوۡنِہِمۡ نَارًا ؕ وَ سَیَصۡلَوۡنَ سَعِیۡرًا﴿٪۱۰﴾

۱۰۔ جو لوگ ناحق یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں بس آگ بھرتے ہیں اور وہ جلد ہی جہنم کی بھڑکتی آگ میں تپائے جائیں گے۔