وَ نُفِخَ فِی الصُّوۡرِ فَاِذَا ہُمۡ مِّنَ الۡاَجۡدَاثِ اِلٰی رَبِّہِمۡ یَنۡسِلُوۡنَ﴿۵۱﴾

۵۱۔ اور جب صور میں پھونک ماری جائے گی تو وہ اپنی قبروں سے اپنے رب کی طرف دوڑ پڑیں گے۔

51۔ یہ نفخۃ الثانیۃ دوسرا صور ہے۔ اس صور سے سب زندہ ہو جائیں گے۔ دیکھیں گے کوئی جائے فرار نہیں ہے سوائے رب العالمین کے۔ اسی کی طرف دوڑنے پر مجبور ہوں گے۔

قَالُوۡا یٰوَیۡلَنَا مَنۡۢ بَعَثَنَا مِنۡ مَّرۡقَدِنَا ٜۘؐ ہٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحۡمٰنُ وَ صَدَقَ الۡمُرۡسَلُوۡنَ﴿۵۲﴾

۵۲۔ کہیں گے: ہائے ہماری تباہی! ہماری خوابگاہوں سے ہمیں کس نے اٹھایا؟ یہ وہی بات ہے جس کا خدائے رحمن نے وعدہ کیا تھا اور پیغمبروں نے سچ کہا تھا۔

52۔ ممکن ہے قیامت کی ہولناک صورتحال کے مقابلے میں قبر کو خوابگاہ سے تعبیر کیا ہو، کیونکہ کافر عالم برزخ میں بھی عذاب میں مبتلا ہوتا ہے۔ ایک نظریے کے مطابق حیات برزخی صرف قبر میں نکیرین کے سوال تک محدود ہے، پھر قیامت تک نیند کی حالت طاری رہے گی۔ چنانچہ امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے: وَمَا بَیْنَ الْمَوْتِ وَ الْبَعْثِ اِلَّا کَنَوْمَۃٍ نِمْتَھَا ثُمَّ اسْتَیْقَظْتَ مِنْھَا ۔ (اصول الکافی 2: 134) یعنی موت اور قیامت کے درمیان کی مدت ایک نیند کی مانند ہے کہ جس کے بعد تو بیدار ہو جائے۔ تحقیق کے مطابق شہداء اور اللہ کے نہایت مقرب بندوں کے لیے عالم برزخ میں زندگی اور نعمتیں موجود ہیں۔ اسی طرح جو بڑے سرکش اور مجرم لوگ ہیں، ان کے لیے عالم برزخ میں زندگی اور عذاب ہے۔ باقی لوگ بعد از موت قبر میں صرف نکیرین کے سوال کے لیے زندہ کیے جائیں گے۔ اس کے بعد قیامت تک ان کے لیے زندگی نہ ہو گی۔

اِنۡ کَانَتۡ اِلَّا صَیۡحَۃً وَّاحِدَۃً فَاِذَا ہُمۡ جَمِیۡعٌ لَّدَیۡنَا مُحۡضَرُوۡنَ﴿۵۳﴾

۵۳۔ وہ تو صرف ایک چیخ ہو گی پھر سب کے سب ہمارے سامنے حاضر کیے جائیں گے۔

فَالۡیَوۡمَ لَا تُظۡلَمُ نَفۡسٌ شَیۡئًا وَّ لَا تُجۡزَوۡنَ اِلَّا مَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ﴿۵۴﴾

۵۴۔ اس روز کسی پر کچھ بھی ظلم نہیں کیا جائے گا اور تمہیں بس وہی بدلہ دیا جائے گا جیسا تم عمل کرتے رہے ہو۔

اِنَّ اَصۡحٰبَ الۡجَنَّۃِ الۡیَوۡمَ فِیۡ شُغُلٍ فٰکِہُوۡنَ ﴿ۚ۵۵﴾

۵۵۔ آج اہل جنت یقینا کیف و سرور کے ساتھ مشغلے میں ہوں گے۔

ہُمۡ وَ اَزۡوَاجُہُمۡ فِیۡ ظِلٰلٍ عَلَی الۡاَرَآئِکِ مُتَّکِـُٔوۡنَ﴿۵۶﴾

۵۶۔ وہ اور ان کی ازواج سایوں میں مسندوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے۔

لَہُمۡ فِیۡہَا فَاکِہَۃٌ وَّ لَہُمۡ مَّا یَدَّعُوۡنَ ﴿ۚۖ۵۷﴾

۵۷۔ وہاں ان کے لیے میوے اور ان کی مطلوبہ چیزیں موجود ہوں گی۔

سَلٰمٌ ۟ قَوۡلًا مِّنۡ رَّبٍّ رَّحِیۡمٍ﴿۵۸﴾

۵۸۔ مہربان رب کی طرف سے سلام کہا جائے گا۔

58۔ جنت کی سب سے بڑی نعمت جس سے انسان کیف و سرور کی انتہا کو پہنچ جاتا ہے، اللہ کی خوشنودی ہے: وَّ رِضۡوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ ۔ (توبۃ:72) جب جنت والوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلام آئے گا تو اہل جنت کے لیے کیف و سرور کی حالت وصف و بیان کی حدود سے خارج ہو گی۔

وَ امۡتَازُوا الۡیَوۡمَ اَیُّہَا الۡمُجۡرِمُوۡنَ﴿۵۹﴾

۵۹۔ اے مجرمو! آج تم الگ ہو جاؤ۔

59۔ دنیا میں تم مومنوں کی صفوں میں داخل ہو کر اپنے کفر و نفاق پر پردہ ڈال سکتے تھے، لیکن آج تمہیں الگ ہونا پڑے گا۔

اَلَمۡ اَعۡہَدۡ اِلَیۡکُمۡ یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ اَنۡ لَّا تَعۡبُدُوا الشَّیۡطٰنَ ۚ اِنَّہٗ لَکُمۡ عَدُوٌّ مُّبِیۡنٌ ﴿ۙ۶۰﴾

۶۰۔ اے اولاد آدم! کیا ہم نے تم سے عہد نہیں لیا تھا کہ تم شیطان کی پرستش نہ کرنا؟بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

60۔اس عہد سے مراد وہ عہد ہو سکتا ہے جو اللہ نے ہر انسان کی فطرت و جبلت میں رکھا ہے۔ جیسا کہ سورئہ الشمس آیت 8 میں فرمایا: فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰىہَا ۔ نفس انسانی میں فسق و فجور اور تقویٰ کی سمجھ ودیعت فرمائی ہے۔