قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۳۱﴾

۳۱۔ کہدیجئے: اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا اور اللہ نہایت بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

31۔ محبت اگر سچی ہے تو محبوب کے حکم اور اشارے کا بے تابی سے انتظار کیا جاتا ہے، جب محبوب کا حکم سنتا ہے تو محب کیف و سرور کی حالت میں آتا ہے۔ حدیث میں آیا ہے: ما احب اللّہ من عصاہ (الوسائل 15: 308) ”جو اللہ کی نافرمانی کرتا ہے وہ اللہ سے محبت نہیں رکھتا“۔

قُلۡ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ ۚ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الۡکٰفِرِیۡنَ﴿۳۲﴾

۳۲۔ کہدیجئے: اللہ اور رسول کی اطاعت کرو، پس اگر وہ لوگ روگردانی کریں تو اللہ کافروں سے محبت نہیں کرتا۔

32۔ کچھ ایسے افراد نے رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے اللہ سے محبت کا دعویٰ کیا جو اللہ کے احکام کی تعمیل میں کوتاہی کرتے تھے۔ ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ محبت امر قلبی ہے اور قلب حقیقت پرست ہوتا ہے، جس پر حقیقت کے سوا کوئی اور چیز کارگر نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ دین بھی عقیدے سے عبارت ہے اور عقیدہ امر قلبی ہے جس پر جبر و اکراہ کارگر نہیں ہو سکتا: لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ (2 بقرۃ : 256) کی طرح کہا جا سکتا ہے کہ لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الْحُب ۔

اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰۤی اٰدَمَ وَ نُوۡحًا وَّ اٰلَ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ اٰلَ عِمۡرٰنَ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿ۙ۳۳﴾

۳۳۔ بے شک اللہ نے آدم، نوح، آل ابراہیم اور آل عمران کو تمام عالمین پر برگزیدہ فرمایا ہے۔

33۔ نوح :حضرت نوح علیہ السلام بن لامنح پہلے صاحب شریعت، صاحب کتاب اور اولوالعزم رسول ہیں۔ آپ علیہ السلام حضرت آدم علیہ السلام کے بعد دوسرے ابو البشر ہیں۔ یعنی طوفان کے بعد موجودہ انسانی نسل کے ابو البشرآپ علیہ السلام ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام کی دسویں پشت میں سے تھے۔ آپ علیہ السلام موجودہ عراق کے بالائی علاقے کے رہنے والے تھے۔ 950 سال زندگی گزاری۔

عمران: اس نام کی دو شخصیات گزری ہیں۔ ایک حضرت موسیٰ علیہ السلام کے والد، بائبل میں ان کا نام عمرام آیا ہے اور دوسری حضرت مریم (س) کے والد ماجد۔ اس آیہ شریفہ میں دونوں عمران مراد لیے جا سکتے ہیں۔ تاہم قرین قیاس یہ ہے کہ مراد حضرت مریم (س) کے والد ماجد ہوں، کیونکہ سلسلہ کلام حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کے بارے میں ہے۔ اناجیل میں حضرت مریم کے والدین کا نام مذکور نہیں ہے۔ تاہم مسیحی روایت میں حضرت مریم (س) کے والد کا نام یوآخیم آیا ہے۔

ذُرِّیَّۃًۢ بَعۡضُہَا مِنۡۢ بَعۡضٍ ؕ وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿ۚ۳۴﴾

۳۴۔ وہ اولاد جو ایک دوسرے کی نسل سے ہیں اور اللہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔

اِذۡ قَالَتِ امۡرَاَتُ عِمۡرٰنَ رَبِّ اِنِّیۡ نَذَرۡتُ لَکَ مَا فِیۡ بَطۡنِیۡ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلۡ مِنِّیۡ ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ﴿۳۵﴾

۳۵۔ (وہ وقت یاد کرو) جب عمران کی عورت نے کہا: میرے رب! جو (بچہ) میرے شکم میں ہے اسے تیری نذر کرتی ہوں، وہ(اور باتوں سے) آزاد ہو گا ، تو میری طرف سے قبول فرما، بے شک تو بڑا سننے والا، جاننے والا ہے۔

فَلَمَّا وَضَعَتۡہَا قَالَتۡ رَبِّ اِنِّیۡ وَضَعۡتُہَاۤ اُنۡثٰی ؕ وَ اللّٰہُ اَعۡلَمُ بِمَا وَضَعَتۡ ؕ وَ لَیۡسَ الذَّکَرُ کَالۡاُنۡثٰی ۚ وَ اِنِّیۡ سَمَّیۡتُہَا مَرۡیَمَ وَ اِنِّیۡۤ اُعِیۡذُہَا بِکَ وَ ذُرِّیَّتَہَا مِنَ الشَّیۡطٰنِ الرَّجِیۡمِ﴿۳۶﴾

۳۶۔ پھر جب اسے جن چکی تو کہنے لگی: میرے رب میں نے لڑکی جنی اور اللہ بہتر جانتا ہے کہ اس (مادر مریم) نے کیا جنا اور لڑکا اس لڑکی جیسا نہیں ہو سکتا تھا اور میں نے اس (لڑکی) کا نام مریم رکھا اور میں اسے اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔

36۔ بعض روایات کے مطابق حضرت مریم کی والدہ نے اس بناء پر نذر مانی تھی کہ ہونے والا نومولود لڑکا ہی ہو سکتا ہے، چونکہ ان کے والد حضرت عمران کو یہ بشارت ہوئی تھی کہ ان کا ایک لڑکا ہونے والا ہے لیکن جب بچی ہوئی تو پریشان ہو گئیں۔

فَتَقَبَّلَہَا رَبُّہَا بِقَبُوۡلٍ حَسَنٍ وَّ اَنۡۢبَتَہَا نَبَاتًا حَسَنًا ۙ وَّ کَفَّلَہَا زَکَرِیَّا ۚؕ کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیۡہَا زَکَرِیَّا الۡمِحۡرَابَ ۙ وَجَدَ عِنۡدَہَا رِزۡقًا ۚ قَالَ یٰمَرۡیَمُ اَنّٰی لَکِ ہٰذَا ؕ قَالَتۡ ہُوَ مِنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَرۡزُقُ مَنۡ یَّشَآءُ بِغَیۡرِ حِسَابٍ﴿۳۷﴾

۳۷۔ چنانچہ اس کے رب نے اس کی نذر (لڑکی) کو بوجہ احسن قبول فرمایا اور اس کی بہترین نشوونما کا اہتمام کیا اور زکریا کو اس کا سرپرست بنا دیا، جب زکریا اس کے حجرۂ عبادت میں جاتے تو اس کے پاس طعام موجود پاتے،پوچھا: اے مریم! یہ (کھانا) تمہارے پاس کہاں سے آتا ہے؟وہ کہتی ہے: اللہ کے ہاں سے، بیشک خدا جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔

37۔ اللہ نے اس لڑکی کی نذر قبول کر لی، لیکن وہ ہیکل (عبادت گاہ ) کی خادمہ تو نہیں بن سکتی تھیں۔ سیاق کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمران اس وقت زندہ نہ تھے، اس لیے حضرت مریم علیہ السلام کی کفالت ایک مسئلہ بن گئی۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے قرعہ اندازی ہوئی تو قرعہ حضرت زکریا علیہ السلام کے نام نکل آیا۔ اپنی کفالت میں لینے کے بعد حضرت زکریا علیہ السلام حضرت مریم علیہ السلام کو حجرہ ہائے عبادت میں سے ایک حجرے میں بٹھا دیتے اور قفل لگا دیتے اور خود آکر کھولتے تو یہ دیکھ کر انہیں تعجب ہوتا کہ مریم علیہ السلام کے پاس بے موسم کے میوے اور کھانے کی چیزیں کہاں سے آتی ہیں۔ کُلَّمَا سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ روز مرہ کا معمول تھا۔ بیضاوی نے اپنی تفسیر میں اور زمخشری نے الکشاف 1:358 میں اسی آیت کے ذیل میں روایت بیان کی ہے کہ حضرت فاطمہ علیہا السلام کے لیے جنت سے رزق آتا تھا۔

ہُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہٗ ۚ قَالَ رَبِّ ہَبۡ لِیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً ۚ اِنَّکَ سَمِیۡعُ الدُّعَآءِ﴿۳۸﴾

۳۸۔اس مقام پر زکریا نے اپنے رب کو پکارا، کہا: میرے رب! مجھے اپنی عنایت سے صالح اولاد عطا کر، یقینا تو ہی دعا سننے والا ہے۔

فَنَادَتۡہُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ ہُوَ قَآئِمٌ یُّصَلِّیۡ فِی الۡمِحۡرَابِ ۙ اَنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکَ بِیَحۡیٰی مُصَدِّقًۢا بِکَلِمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ سَیِّدًا وَّ حَصُوۡرًا وَّ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیۡنَ﴿۳۹﴾

۳۹۔چنانچہ جب وہ حجرۂ عبادت میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے تو فرشتوں نے آواز دی: اللہ تجھے یحییٰ کی بشارت دیتا ہے جو کلمہ اللہ کی طرف سے ہے وہ اس کی تصدیق کرنے والا، سیادت کا مالک، خواہشات پر ضبط رکھنے والا، نبوت کے مقام پر فائز اور صالحین میں سے ہو گا۔

قَالَ رَبِّ اَنّٰی یَکُوۡنُ لِیۡ غُلٰمٌ وَّ قَدۡ بَلَغَنِیَ الۡکِبَرُ وَ امۡرَاَتِیۡ عَاقِرٌ ؕ قَالَ کَذٰلِکَ اللّٰہُ یَفۡعَلُ مَا یَشَآءُ﴿۴۰﴾

۴۰۔ زکریا بولے: میرے رب! میرے ہاں لڑکا کہاں سے پیدا ہو گا جبکہ میں تو سن رسیدہ ہو چکا ہوں اور میری عورت بانجھ ہے، اللہ نے فرمایا :ایسا ہی ہو گا اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ۔

38۔40۔ کَلِمَۃٍ : (ک ل م) سے ماخوذ ہے۔ اس سے کلام بھی مراد لیا جاتا ہے اور ذوات بھی۔ یہاں کلمہ سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تخلیق بغیر باپ کے کلمہ کن سے ہوئی۔ اس لیے آپ علیہ السلام کو کلمہ کہا جاتا ہے۔

حضرت زکریا علیہ السلام کے ہاں اولاد نہ تھی۔ ممکن ہے کہ مریم علیہ السلام کی پاکیزگی اور منزلت دیکھ کر اولاد کی خواہش زیادہ ہو گئی ہو۔اگرچہ خود زکریا علیہ السلام نے اللہ سے اولاد کی خواہش کی تھی، لیکن حضرت زکریا علیہ السلام کے ذہن میں اس کے لیے دو رکاوٹیں موجود تھیں۔ ایک بڑھاپا، دوسری رکاوٹ بیوی کا بانجھ ہونا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میری قدرت کے آگے کوئی چیز رکاوٹ نہیں بن سکتی۔