وَ مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنۡ یَّغُلَّ ؕ وَ مَنۡ یَّغۡلُلۡ یَاۡتِ بِمَا غَلَّ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ۚ ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفۡسٍ مَّا کَسَبَتۡ وَ ہُمۡ لَا یُظۡلَمُوۡنَ﴿۱۶۱﴾

۱۶۱۔ اور کسی نبی سے یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ خیانت کرے اور جو کوئی خیانت کرتا ہے وہ قیامت کے دن اپنی خیانت کی ہوئی چیز کو (اللہ کے سامنے)حاضر کرے گا، پھر ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

161۔ بعض روایات کے مطابق یہ آیت ان تیر اندازوں کے بارے میں نازل ہوئی جن کو رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عقب لشکر کی حفاظت کے لیے بٹھایا تھا۔ انہوں نے اس بدگمانی کی بنا پر رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نافرمانی کی کہ بعد میں ان کے ساتھ خیانت ہو گی اور غنیمت میں برابر کا حصہ نہیں ملے گا۔ اس آیت میں ان کی سرزنش ہو رہی ہے کہ کسی نبی سے اس قسم کی خیانت سرزد نہیں ہوتی۔

اَفَمَنِ اتَّبَعَ رِضۡوَانَ اللّٰہِ کَمَنۡۢ بَآءَ بِسَخَطٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ مَاۡوٰىہُ جَہَنَّمُ ؕ وَ بِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ ﴿۱۶۲﴾

۱۶۲۔ کیا جو شخص اللہ کی خوشنودی کا تابع ہو وہ اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو اللہ کے غضب میں گرفتار ہو اور جس کا ٹھکانا جہنم ہو؟ اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔

ہُمۡ دَرَجٰتٌ عِنۡدَ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ بَصِیۡرٌۢ بِمَا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۶۳﴾

۱۶۳۔اللہ کے نزدیک ان کے لیے درجات ہیں اور اللہ ان کے اعمال کو خوب دیکھنے والا ہے۔

163۔ ہُمۡ دَرَجٰتٌ دونوں کے درجات ہوں گے یعنی دونوں کے طبقات ہوں گے۔ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے والے بلند درجات میں اور غضب الہی کے سزاوار پست درجات میں یعنی پست طبقے میں ہوں گے۔

لَقَدۡ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذۡ بَعَثَ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ۚ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ﴿۱۶۴﴾ ۞ؒ

۱۶۴۔ ایمان والوں پر اللہ نے بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاکیزہ کرتا اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے جب کہ اس سے پہلے یہ لوگ صریح گمراہی میں مبتلا تھے۔

اَوَ لَمَّاۤ اَصَابَتۡکُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ قَدۡ اَصَبۡتُمۡ مِّثۡلَیۡہَا ۙ قُلۡتُمۡ اَنّٰی ہٰذَا ؕ قُلۡ ہُوَ مِنۡ عِنۡدِ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۱۶۵﴾

۱۶۵۔ (مسلمانو! ) جب تم پر ایک مصیبت پڑی تو تم کہنے لگے: یہ کہاں سے آئی؟ جبکہ اس سے دگنی مصیبت تم (فریق مخالف پر)ڈال چکے ہو، کہدیجئے: یہ خود تمہاری اپنی لائی ہوئی مصیبت ہے، بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

165۔ حق پر ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ علل و اسباب سے بالاتر ہیں۔ یہ شکست خود تمہاری خیانت اور قیادت کے احکام سے انحراف کا نتیجہ ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ تم خیانت کرو اور اس کا نتیجہ فتح و نصرت کی صورت میں سامنے آئے۔ نیز تم قیادت کی نافرمانی کرو اور اس کا نتیجہ عزت و جلالت ہو۔ اس کے باوجود اس صدمے کی تخفیف کی خاطر جنگ بدر کے ساتھ موازنہ فرمایا کہ تم نے وہاں ان کے ستر مارے اور ستر اسیر بنائے اور آج تمہارے صرف ستر افراد شہید ہوئے۔

وَ مَاۤ اَصَابَکُمۡ یَوۡمَ الۡتَقَی الۡجَمۡعٰنِ فَبِاِذۡنِ اللّٰہِ وَ لِیَعۡلَمَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴿۱۶۶﴾ۙ

۱۶۶۔ اور دونوں فریقوں کے درمیان مقابلے کے روز تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ اللہ کے اذن سے تھی اور (اس لیے بھی کہ) اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ مومن کون ہیں۔

166۔ فَبِاِذۡنِ اللّٰہِ : یعنی تم اس جنگ میں اذن خدا سے شکست سے دو چار ہوئے۔ اذن خدا کا مطلب یہ ہے کہ علل و اسباب کے تحت جو نتیجہ مرتب ہونا ہے اس میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے اور ہونے دیا جائے۔ اس ”رکاوٹ نہ ڈالنے“ اور ”ہونے دینے“ کو اذن کہتے ہیں۔ یعنی اس کی مشیت کے مطابق یہ ضرر تمہیں پہنچا کیونکہ یہ تمہاری نافرمانی کا لازمی نتیجہ تھا جو اللہ کے وضع کردہ دستور علل و اسباب کے مطابق ہے۔ تاہم جو کچھ ہوا اس میں مومن اور منافق کا فرق نمایاں ہو گیا۔

وَ لِیَعۡلَمَ الَّذِیۡنَ نَافَقُوۡا ۚۖ وَ قِیۡلَ لَہُمۡ تَعَالَوۡا قَاتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَوِ ادۡفَعُوۡا ؕ قَالُوۡا لَوۡ نَعۡلَمُ قِتَالًا لَّا تَّبَعۡنٰکُمۡ ؕ ہُمۡ لِلۡکُفۡرِ یَوۡمَئِذٍ اَقۡرَبُ مِنۡہُمۡ لِلۡاِیۡمَانِ ۚ یَقُوۡلُوۡنَ بِاَفۡوَاہِہِمۡ مَّا لَیۡسَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ ؕ وَ اللّٰہُ اَعۡلَمُ بِمَا یَکۡتُمُوۡنَ﴿۱۶۷﴾ۚ

۱۶۷۔ اور یہ بھی دیکھنا چاہتا تھا کہ نفاق کرنے والے کون ہیں،جب ان سے کہا گیا: آؤ اللہ کی راہ میں جنگ کرو یا دفاع کرو تو وہ کہنے لگے: اگر ہمیں علم ہوتا کہ (طریقے کی) جنگ ہو رہی ہے تو ہم ضرور تمہارے پیچھے ہو لیتے، اس دن یہ لوگ ایمان کی بہ نسبت کفر سے زیادہ قریب ہو چکے تھے، وہ اپنے منہ سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتی اور جو کچھ یہ لوگ چھپاتے ہیں اللہ اس سے خوب آگاہ ہے

167۔ اَوِ ادۡفَعُوۡا ۔ یعنی اگر تم جنگ میں شرکت نہ کرو تو لشکر اسلام کے ساتھ رہو تاکہ اس سے تقویت ملے اور مسلمانوں کا دفاع ہو سکے۔ منافقین نے یہ تجویز بھی مسترد کر دی۔ ممکن ہے یہ مراد ہو: جنگ نہ لڑو تو اپنے شہر اور آبادی کا دفاع کرو۔ قَالُوْا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا :شہر سے باہر لڑنا کوئی جنگ ہوتی تو ہم شرکت کرتے۔ یعنی منافقین مسلمانوں سے کہتے تھے کہ تمہارا یہ طریقہ جنگ خود کشی کے مترادف ہے۔ اگر درست جنگ لڑتے تو ہم بھی ضرور شرکت کرتے۔

اَلَّذِیۡنَ قَالُوۡا لِاِخۡوَانِہِمۡ وَ قَعَدُوۡا لَوۡ اَطَاعُوۡنَا مَا قُتِلُوۡا ؕ قُلۡ فَادۡرَءُوۡا عَنۡ اَنۡفُسِکُمُ الۡمَوۡتَ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۱۶۸﴾

۱۶۸۔ یہ وہ لوگ ہیں جو خود (پیچھے) بیٹھے رہے اور اپنے بھائیوں کے بارے میں کہنے لگے: کاش! اگر وہ ہماری بات مانتے تو قتل نہ ہوتے، ان سے کہدیجئے: اگر تم سچے ہو تو موت کو اپنے سے ٹال دو۔

168۔ لِاِخۡوَانِہِمۡ : برادری سے مراد دینی و نظریاتی نہیں بلکہ اپنے قبیلے کی برادری مراد ہے۔ کفر کے قریب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ باطن میں تو تھے ہی کافر لیکن اب اعلانیہ کافرانہ حرکات کرنے لگ گئے۔

وَ لَا تَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ قُتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتًا ؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ یُرۡزَقُوۡنَ﴿۱۶۹﴾ۙ

۱۶۹۔ اور جو لوگ راہ خدا میں مارے گئے ہیں قطعاً انہیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس سے رزق پا رہے ہیں۔

169۔ منافقین کے اس طنز کہ مسلمان بے ڈھنگی لڑائی کی وجہ سے مارے گئے، کا جواب ہے۔ جو لوگ راہ خدا میں مارے جاتے ہیں وہ زندہ ہیں، کیونکہ موت شعور سلب ہو نے سے عبارت ہے۔ شہید چونکہ رزق پاتے ہیں، لہٰذا وہ شعور کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اللہ سے رزق پانے کا لازمہ خوشی و مسرت ہے۔ انہیں نہ خوف لاحق رہتا ہے اور نہ حزن و ملال، کیونکہ کسی موجودہ آسائش کے سلب ہونے کا خطرہ ہو تو خوف لاحق ہوتا ہے اور سلب ہو جائے تو حزن لاحق ہو جاتا ہے۔ اللہ کے ہاں رزق پانے کے بعد اس کے سلب ہونے کا کوئی خوف قابل تصور نہیں ہے اور یہ رزق چونکہ ابدی ہے اور اس کے چھن جانے کی نوبت نہیں آتی اس لیے حزن بھی قابلِ تصور نہیں ہے۔

فَرِحِیۡنَ بِمَاۤ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ ۙ وَ یَسۡتَبۡشِرُوۡنَ بِالَّذِیۡنَ لَمۡ یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ مِّنۡ خَلۡفِہِمۡ ۙ اَلَّا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ﴿۱۷۰﴾ۘ

۱۷۰۔اللہ نے اپنے فضل سے جو کچھ انہیں دیا ہے اس پر وہ خوش ہیں اور جو لوگ ابھی ان کے پیچھے ان سے نہیں جا ملے ان کے بارے میں بھی خوش ہیں کہ انہیں (قیامت کے روز) نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ محزون ہوں گے۔