فَاَکَلَا مِنۡہَا فَبَدَتۡ لَہُمَا سَوۡاٰتُہُمَا وَ طَفِقَا یَخۡصِفٰنِ عَلَیۡہِمَا مِنۡ وَّرَقِ الۡجَنَّۃِ ۫ وَ عَصٰۤی اٰدَمُ رَبَّہٗ فَغَوٰی ﴿۱۲۱﴾۪ۖ

۱۲۱۔چنانچہ دونوں نے اس میں سے کھایا تو دونوں کے لیے ان کے ستر کھل گئے اور دونوں نے اپنے اوپر جنت کے پتے گانٹھنے شروع کر دیے اور آدم نے اپنے رب کے حکم میں کوتاہی کی تو غلطی میں رہ گئے ۔

121۔ اس درخت کا پھل کھانے سے حضرت آدم علیہ السلام کے جنتی لباس اتر گئے یا چھین لیے گئے؟ تفصیل کا ہمیں علم نہیں ہے، البتہ پھل کھانے اور لباس کے اترنے میں کوئی گہرا ربط ضرور تھا۔

وَ عَصٰۤی اٰدَمُ : ایک حکم تکوینی کی نافرمانی تھی جسے حکم ارشادی کہتے ہیں جس طرح طبیب حضرات مضر صحت چیزوں سے پرہیز کے لیے کہتے ہیں۔ کوئی اس کی خلاف ورزی کرتا ہے تو قدرتی اثر اس پر مترتب ہوتا ہے۔

ثُمَّ اجۡتَبٰہُ رَبُّہٗ فَتَابَ عَلَیۡہِ وَ ہَدٰی﴿۱۲۲﴾

۱۲۲۔ پھر ان کے رب نے انہیں برگزیدہ کیا اور ان کی توبہ قبول کی اور ہدایت دی۔

122۔ حضرت آدم علیہ السلام کو زمین پر بھیجنے کے بعد نبوت سے سرفراز کیا اور مکلف بنایا۔ ان کی رہنمائی فرمائی، اللہ کی مرضی کے حصول کی رہنمائی، آئندہ کے لیے نوع انسانی کی نسل کو چلانے کی رہنمائی، زندگی کے لوازمات کی رہنمائی۔ لفظ ہَدٰی مطلق ہے۔ ہر قسم کی رہنمائی کو شامل کرتا ہے۔

قَالَ اہۡبِطَا مِنۡہَا جَمِیۡعًۢا بَعۡضُکُمۡ لِبَعۡضٍ عَدُوٌّ ۚ فَاِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ مِّنِّیۡ ہُدًی ۬ۙ فَمَنِ اتَّبَعَ ہُدَایَ فَلَا یَضِلُّ وَ لَا یَشۡقٰی ﴿۱۲۳﴾

۱۲۳۔ فرمایا: یہاں سے دونوں اکٹھے اتر جاؤ ایک دوسرے کے دشمن ہو کر پھر میری طرف سے تمہارے پاس کوئی ہدایت آئے تو جو میری ہدایت کی اتباع کرے گا وہ نہ گمراہ ہو گا اور نہ شقی۔

وَ مَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِکۡرِیۡ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیۡشَۃً ضَنۡکًا وَّ نَحۡشُرُہٗ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ اَعۡمٰی﴿۱۲۴﴾

۱۲۴۔ اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا اسے یقینا ایک تنگ زندگی نصیب ہو گی اور بروز قیامت ہم اسے اندھا محشور کریں گے۔

124۔ جو قلب ذکر خدا سے معطر نہ ہو اسے زندگی کا لطف نہیں آتا۔ یہ قلب اپنے خالق سے بہت مانوس ہوتا ہے اس سے جدائی کی صورت میں اسے سکون نہیں ملتا خواہ دنیا کی ساری دولت اور حکومت اس کو میسر آ جائے۔ اس سے یہ نکتہ بھی سمجھ میں آ جاتا ہے کہ انسان صرف اس دنیا کی زندگی کے لیے پیدا نہیں ہوا، کیونکہ اس دنیا کی ریل پیل سے اس کا جی نہیں بھرتا، بلکہ وہ مزید بے سکون ہو جاتا ہے۔ اگر یہ انسان صرف اسی زندگی کے لیے پیدا ہوا ہوتا تو اسی دنیا کی چیزوں سے اسے اس طرح سکون ملنا چاہیے تھا جس طرح مچھلی کو پانی میں سکون ملتا ہے۔

قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرۡتَنِیۡۤ اَعۡمٰی وَ قَدۡ کُنۡتُ بَصِیۡرًا﴿۱۲۵﴾

۱۲۵۔ وہ کہے گا: میرے رب! تو نے مجھے اندھا کر کے کیوں اٹھایا حالانکہ میں تو بینا تھا؟

قَالَ کَذٰلِکَ اَتَتۡکَ اٰیٰتُنَا فَنَسِیۡتَہَا ۚ وَکَذٰلِکَ الۡیَوۡمَ تُنۡسٰی﴿۱۲۶﴾

۱۲۶۔ جواب ملے گا: ایسا ہی ہے! ہماری نشانیاں تیرے پاس آئی تھیں تو نے انہیں بھلا دیا تھا اور آج تو بھی اسی طرح بھلایا جا رہا ہے۔

وَ کَذٰلِکَ نَجۡزِیۡ مَنۡ اَسۡرَفَ وَ لَمۡ یُؤۡمِنۡۢ بِاٰیٰتِ رَبِّہٖ ؕ وَ لَعَذَابُ الۡاٰخِرَۃِ اَشَدُّ وَ اَبۡقٰی ﴿۱۲۷﴾

۱۲۷۔ اور ہم حد سے تجاوز کرنے والوں اور اپنے رب کی نشانیوں پر ایمان نہ لانے والوں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں اور آخرت کا عذاب تو زیادہ شدید اور تادیر باقی رہنے والا ہے۔

125 تا 127۔ ایک ضابطہ کلی کا بیان ہے کہ جس طرح مذکورہ شخص کو اندھا ہو کر اللہ کی بارگاہ میں جانا پڑے گا اسی طرح ہر حد سے تجاوز کرنے والے کی سزا بھی یہی ہو گی۔ جیسے اس دارِ دنیا میں اللہ کو فراموش کیا ہے، ویسے اللہ بھی دارِ آخرت میں اسے فراموش کرے گا۔

اَفَلَمۡ یَہۡدِ لَہُمۡ کَمۡ اَہۡلَکۡنَا قَبۡلَہُمۡ مِّنَ الۡقُرُوۡنِ یَمۡشُوۡنَ فِیۡ مَسٰکِنِہِمۡ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی النُّہٰی﴿۱۲۸﴾٪

۱۲۸۔ کیا انہوں نے اس بات سے کوئی ہدایت حاصل نہیں کی کہ ان سے پہلے بہت سی نسلوں کو ہم نے ہلاک کر دیا جن کی بستیوں میں آج یہ لوگ چل پھر رہے ہیں؟ اس بات میں یقینا ہوشمندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔

128۔ گزشتہ اقوام کی سرگزشت میں دروس عبرت موجود ہیں، جن کے تباہ شدہ محلات سے لوگوں کا گزر ہوتا رہتا ہے۔ چنانچہ اہل مکہ احقاف یمن جاتے ہوئے قوم عاد کے تباہ شدہ تمدن، شام جاتے ہوئے قوم ثمود کی تباہ شدہ تہذیب اور فلسطین جاتے ہوئے قوم لوط کی تباہ حالی کا مشاہدہ کرتے رہتے تھے۔

وَ لَوۡ لَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتۡ مِنۡ رَّبِّکَ لَکَانَ لِزَامًا وَّ اَجَلٌ مُّسَمًّی﴿۱۲۹﴾ؕ

۱۲۹۔ اور اگر آپ کے رب کی طرف سے ایک بات طے نہ ہو چکی ہوتی اور ایک مدت کا تعین نہ ہو چکا ہوتا تو (عذاب کا نزول) لازمی تھا۔

129۔ جب اللہ تعالیٰ کی حکمت میں مجرم کو فوری سزا دینا نہیں ہے تو ان مجرموں کے بارے میں بھی فوری سزا کی توقع نہ رکھو بلکہ صبر سے کام لو۔

فَاصۡبِرۡ عَلٰی مَا یَقُوۡلُوۡنَ وَ سَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّکَ قَبۡلَ طُلُوۡعِ الشَّمۡسِ وَ قَبۡلَ غُرُوۡبِہَا ۚ وَ مِنۡ اٰنَآیِٔ الَّیۡلِ فَسَبِّحۡ وَ اَطۡرَافَ النَّہَارِ لَعَلَّکَ تَرۡضٰی﴿۱۳۰﴾

۱۳۰۔ لہٰذا جو کچھ یہ لوگ کہتے ہیں اس پر صبر کریں اور طلوع آفتاب سے پہلے اور غروب آفتاب سے پہلے اپنے رب کی ثناء کی تسبیح کریں اور کچھ اوقات شب میں اور دن کے اطراف میں بھی اس کی تسبیح کیا کریں تاکہ آپ خوش رہیں۔

130۔ لَعَلَّکَ تَرۡضٰی : قلب کی رضایت اللہ کی تسبیح و تمجید میں ہے۔ قلب و ضمیر کی غذا ذکر خدا ہے اس سے انسان کو جو کیف و سرور نصیب ہوتا ہے وہ کسی اور غذا میں نہیں ہے۔