وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الۡاَسۡمَآءَ کُلَّہَا ثُمَّ عَرَضَہُمۡ عَلَی الۡمَلٰٓئِکَۃِ ۙ فَقَالَ اَنۡۢبِـُٔوۡنِیۡ بِاَسۡمَآءِ ہٰۤؤُلَآءِ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ﴿۳۱﴾

۳۱۔ اور (اللہ نے) آدم کو تمام نام سکھا دیے، پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا پھر فرمایا : اگر تم سچے ہو تو مجھے ان کے نام بتاؤ۔

31۔ الۡاَسۡمَآءَ اسم کی جمع ہے۔ اسم اس چیز کو کہتے ہیں جو کسی ذات پر دلالت کرے۔ یعنی اسم وہ ہوتا ہے جو ”مسمی“ بتائے۔ پس ہر وہ چیز جو کسی موجود کی نشاندہی کرے اسم ہے۔ لہٰذا یہاں تعلیم اسماء سے مراد تمام حقائق کی تعلیم ہی ہو سکتی ہے۔ عَرَضَہُمۡ میں ہُمۡ کی ضمیر عقل و ادراک رکھنے والوں کے لیے استعمال ہوتی ہے، اس لیے ممکن ہے ان اسماء کا اطلاق اللہ کے خلفاء پر ہو تاکہ آدم علیہ السلام کو پہلے سے علم ہو جائے: زمین ان کی زمین ہے اور بشر ان کی نسل ہو گی اور خلفاء ان کی ذریت ہوں گے۔

فرشتوں کی حیرت و استعجاب پر اللہ کے اجمالی جواب: اِنِّیۡۤ اَعۡلَمُ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ کے بعد اب تفصیلی جواب دیا جا رہا ہے۔ اس جواب میں آدم علیہ السلام کو خلافت الٰہیہ کے عظیم منصب پر فائز کرنے کا راز بھی مذکور ہے۔

قَالُوۡا سُبۡحٰنَکَ لَا عِلۡمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمۡتَنَا ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَلِیۡمُ الۡحَکِیۡمُ﴿۳۲﴾

۳۲۔ فرشتوں نے کہا: تو پاک و منزہ ہے جو کچھ تو نے ہمیں بتا دیا ہے ہم اس کے سوا کچھ نہیں جانتے۔ یقینا تو ہی بہتر جاننے والا، حکمت والا ہے۔

قَالَ یٰۤاٰدَمُ اَنۡۢبِئۡہُمۡ بِاَسۡمَآئِہِمۡ ۚ فَلَمَّاۤ اَنۡۢبَاَہُمۡ بِاَسۡمَآئِہِمۡ ۙ قَالَ اَلَمۡ اَقُلۡ لَّکُمۡ اِنِّیۡۤ اَعۡلَمُ غَیۡبَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۙ وَ اَعۡلَمُ مَا تُبۡدُوۡنَ وَ مَا کُنۡتُمۡ تَکۡتُمُوۡنَ﴿۳۳﴾

۳۳۔ (اللہ نے) فرمایا: اے آدم! ان (فرشتوں) کو ان کے نام بتلا دو، پس جب آدم نے انہیں ان کے نام بتا دیے تو اللہ نے فرمایا: کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتیں خوب جانتا ہوں نیز جس چیز کا تم اظہار کرتے ہو اور جو کچھ تم پوشیدہ رکھتے ہو، وہ سب جانتا ہوں۔

وَ اِذۡ قُلۡنَا لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اسۡجُدُوۡا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوۡۤا اِلَّاۤ اِبۡلِیۡسَ ؕ اَبٰی وَ اسۡتَکۡبَرَ ٭۫ وَ کَانَ مِنَ الۡکٰفِرِیۡنَ﴿۳۴﴾

۳۴۔ اور (اس وقت کو یاد کرو)جب ہم نے فرشتوں سے کہا: آدم کو سجدہ کرو تو ان سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، اس نے انکار اور تکبر کیا اور وہ کافروں میں سے ہو گیا۔

وَ قُلۡنَا یٰۤاٰدَمُ اسۡکُنۡ اَنۡتَ وَ زَوۡجُکَ الۡجَنَّۃَ وَ کُلَا مِنۡہَا رَغَدًا حَیۡثُ شِئۡتُمَا ۪ وَ لَا تَقۡرَبَا ہٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُوۡنَا مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ﴿۳۵﴾

۳۵۔ اور ہم نے کہا: اے آدم! تم اور تمہاری زوجہ جنت میں قیام کرو اور اس میں جہاں سے چاہو فراوانی سے کھاؤ اور اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ تم دونوں زیادتی کا ارتکاب کرنے والوں میں سے ہو جاؤ گے۔

فَاَزَلَّہُمَا الشَّیۡطٰنُ عَنۡہَا فَاَخۡرَجَہُمَا مِمَّا کَانَا فِیۡہِ ۪ وَ قُلۡنَا اہۡبِطُوۡا بَعۡضُکُمۡ لِبَعۡضٍ عَدُوٌّ ۚ وَ لَکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ مُسۡتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰی حِیۡنٍ﴿۳۶﴾

۳۶۔پس شیطان نے ان دونوں کو وہاں سے پھسلا دیا، پھر جس (نعمت) میں وہ دونوں قیام پذیر تھے اس سے ان دونوں کو نکلوا دیا اور ہم نے کہا: (اب) تم ایک دوسرے کے دشمن بن کر نیچے اتر جاؤ اور ایک مدت تک زمین میں تمہارا قیام اور سامان زیست ہو گا۔

32 تا 36۔ حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے زمین پر بسانے کے لیے خلق فرمایا تھا۔ اس خلیفہ ارض کو زمین پر بسانے سے پہلے مختلف مراحل سے گزارا گیا: ٭ سب سے پہلے انہیں اسماء کی تعلیم دی۔ ٭ پھر معلم کے مقام پر فائز کیا۔ ٭ فرشتوں کو ان کے سامنے جھکایا۔ ٭ شجرﮤ ممنوعہ کے ذریعے ایک عیار دشمن سے ان کا سامنا کرایا۔

یہاں انسانی زندگی کے لوازم کا عندیہ ملتا ہے :

اسۡکُنۡ سے مکان۔ 2۔ زَوۡجُکَ سے بیوی۔ 3۔ کُلَا سے روٹی۔ 4۔ وَ لَا تَقۡرَبَا سے قانون کی پابندی۔ ان مراحل کے بعد وَ لَکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ مُسۡتَقَرٌّ کا حکم نامہ جاری ہوا۔

حضرت آدم علیہ السلام کو زمین پر بسانے سے پہلے دو دشمنوں سے آگاہ کیا گیا۔ ایک داخلی دشمن جو نفسانی خواہشات ہے اور ایک بیرونی دشمن ابلیس۔ ساتھ ہی یہ درس بھی یاد کرایا کہ بیرونی دشمن داخلی دشمن (خواہشات ) کے ذریعے حملہ آور ہوتا ہے۔

فَتَلَقّٰۤی اٰدَمُ مِنۡ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیۡہِ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ﴿۳۷﴾

۳۷۔ پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ لیے تو اللہ نے آدم کی توبہ قبول کر لی، بے شک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا، مہربان ہے۔

37۔ در منثور میں ہے کہ ابن نجار نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کلمات کے بارے میں سوال ہوا تو آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: سئل بحق محمد و علی و فاطمہ و الحسن و الحسین الا تبت علی فتاب علیہ ۔ یعنی آدم نے محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم، علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلام کا واسطہ دے کر سوال کیا کہ میری توبہ قبول فرما تو اللہ نے ان کی توبہ قبول فرمائی۔

قُلۡنَا اہۡبِطُوۡا مِنۡہَا جَمِیۡعًا ۚ فَاِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ مِّنِّیۡ ہُدًی فَمَنۡ تَبِعَ ہُدَایَ فَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ﴿۳۸﴾

۳۸۔ ہم نے کہا: تم سب یہاں سے نیچے اتر جاؤ، پھر اگر میری طرف سے کوئی ہدایت تم تک پہنچے تو جس جس نے میری ہدایت کی پیروی کی، پھر انہیں نہ تو کوئی خوف ہو گا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔

وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ﴿٪۳۹﴾

۳۹۔ اور جو لوگ کفر کریں اور ہماری آیات کو جھٹلائیں وہی دوزخ والے ہوں گے، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

38۔ 39۔ ھبوط الی الارض کا حکم دو مرتبہ ملا ہے۔ ایک حکم توبہ سے پہلے، اس میں فرمایا: ایک دوسرے کے دشمن بن کر اتر جاؤ۔ توبہ کے بعد کے حکم میں فرمایا: جس نے میری ہدایت کی پیروی کی، پھر انہیں نہ تو کوئی خوف ہو گا، نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔ توبہ سے پہلے حکم میں باہمی عداوت اور بعد کے حکم میں ہدایت و نجات کا ذکر ہے۔

زمین پر اترنے کا حکم ملنے کے بعد روئے زمین پر بسنے والوں کے لیے پہلی مرتبہ شریعت اور دستور حیات کا ذکر ہو رہا ہے۔ ان دو مختصر آیتوں میں آنے والی تمام شریعتوں کا ایک نہایت ہی جامع خلاصہ ذکر فرمایا۔ یہ خلاصہ تین ایسے نکات پر مشتمل ہے جو بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں: 1۔ ہدایت: اس میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کا ذکر ہے: مِّنِّیۡ ہُدًی ۔ 2۔ اتباع: اس میں ہدایت خداوندی کی اتباع کرنے والوں کے اچھے انجام اور ان کی حیات ابدی کا ذکر ہے: فَمَنۡ تَبِعَ ہُدَایَ فَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ۔ ”جو میری ہدایت کی پیروی کرے گا اسے نہ آئندہ کے بارے میں کسی نقصان کا خوف ہو گا اور نہ کسی گزشتہ خسارے پر حزن و ملال۔“ اس آیت میں ہدایت کی اتباع کرنے والوں کی حیات کی جامع تعریف یوں بیان کی گئی ہے کہ ان کی زندگی سکون و اطمینان سے گزرے گی اور زندگی کا سکون غارت کرنے والے دو عوامل خوف اور حزن ان کے قریب نہیں پھٹکیں گے۔ اَلَا بِذِکۡرِ اللّٰہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ (13 :28) یاد رکھو! یاد خدا سے دلوں کو اطمینان ملتا ہے۔ 3۔ کفر: آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو اس ہدایت کی پیروی سے انکار کریں گے ایسے لوگوں کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

یٰبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتِیَ الَّتِیۡۤ اَنۡعَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ وَ اَوۡفُوۡا بِعَہۡدِیۡۤ اُوۡفِ بِعَہۡدِکُمۡ ۚ وَ اِیَّایَ فَارۡہَبُوۡنِ﴿۴۰﴾

۴۰۔ اے بنی اسرائیل! میری وہ نعمت یاد کرو جس سے میں نے تمہیں نوازا ہے اور میرے عہد کو پورا کرو میں تمہارے عہد کو پورا کروں گا اور تم لوگ صرف مجھ ہی سے ڈرتے رہو۔