تِلۡکَ اُمَّۃٌ قَدۡ خَلَتۡ ۚ لَہَا مَا کَسَبَتۡ وَ لَکُمۡ مَّا کَسَبۡتُمۡ ۚ وَ لَا تُسۡـَٔلُوۡنَ عَمَّا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۴۱﴾٪

۱۴۱۔ یہ امت گزر چکی ہے، ان کے اعمال ان کے لیے اور تمہارے اعمال تمہارے لیے اور تم سے (گزشتہ امتوں کے بارے میں)نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ کیا کرتے تھے۔

141۔ اسلاف کے اعمال سے امیدیں وابستہ رکھنے اور خود بدعمل ہونے کی یہ روش اتنی عام تھی کہ آیت 134 کے بعد دوسری مرتبہ پھر تاکید کے ساتھ وہی مطلب بیان فرمایا گیا ہے۔

سَیَقُوۡلُ السُّفَہَآءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّٰىہُمۡ عَنۡ قِبۡلَتِہِمُ الَّتِیۡ کَانُوۡا عَلَیۡہَا ؕ قُلۡ لِّلّٰہِ الۡمَشۡرِقُ وَ الۡمَغۡرِبُ ؕ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ﴿۱۴۲﴾

۱۴۲۔ لوگوں میں سے کم عقل لوگ ضرور کہیں گے: جس قبلے کی طرف یہ رخ کرتے تھے اس سے انہیں کس چیز نے پھیر دیا؟ (اے رسول ان سے) کہدیجئے: مشرق اور مغرب سب اللہ کے ہیں، اللہ جسے چاہتا ہے راہ راست کی ہدایت فرماتا ہے۔

142۔ قبلہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ کسی خاص سمت میں ہے، بلکہ اس سے مراد کسی نظریے اور نظام کی وہ مخصوص علامت ہے جس سے اس کی عظمت اور تاریخ وابستہ ہے۔جب زمامِ امامت اولادِ اسحاق کے پاس تھی تو یہ رمز اور علامت بیت المقدس کے ساتھ وابستہ تھی، لیکن اب نسل اسماعیل کی لازوال عظمتیں خانہ کعبہ کے ساتھ وابستہ ہیں: ٭کعبہ وہ پہلا گھر ہے جو عبادت کے لیے بنایا گیا۔ ٭جہاں حضرت آدم علیہ السلام نے نزول فرمایا اور یہاں سے نسل انسانی اور دعوت الٰہی کا آغاز ہوا۔ ٭جہاں مقامِ ابراہیم علیہ السلام و خانہ اسماعیل علیہ السلام ہے۔ ٭جس کی طرف حضرت اسماعیل علیہ السلام نے ہجرت کی۔٭ جہاں سے حضرت رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہجرت کی۔ ٭جہاں تاریخ کی عظیم قربانی پیش کی گئی۔ ٭جہاں تاریخ کی سب سے بڑی بت شکنی ہوئی۔ ٭جہاں سے دعوت اسلام کی ابتداء ہوئی۔ ٭جہاں پر اسلام کی عظیم فتح (فتح مکہ) کا واقعہ پیش آیا۔ ٭ جہاں ابراہیم علیہ السلام کے ایک عظیم فرزند علی ابن ابی طالب علیہ السلام پیدا ہوئے۔

وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنٰکُمۡ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ عَلَیۡکُمۡ شَہِیۡدًا ؕ وَ مَا جَعَلۡنَا الۡقِبۡلَۃَ الَّتِیۡ کُنۡتَ عَلَیۡہَاۤ اِلَّا لِنَعۡلَمَ مَنۡ یَّتَّبِعُ الرَّسُوۡلَ مِمَّنۡ یَّنۡقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیۡہِ ؕ وَ اِنۡ کَانَتۡ لَکَبِیۡرَۃً اِلَّا عَلَی الَّذِیۡنَ ہَدَی اللّٰہُ ؕ وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُضِیۡعَ اِیۡمَانَکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ بِالنَّاسِ لَرَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ﴿۱۴۳﴾

۱۴۳۔ اور اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط بنا دیا تاکہ تم لوگوں پر گواہ رہو اور رسول تم پر گواہ رہیں اور آپ پہلے جس قبلے کی طرف رخ کرتے تھے اسے ہم نے صرف اس لیے مقرر کیا تھا تاکہ ہم رسول کی اتباع کرنے والوں کو الٹا پھر جانے والوں سے پہچان لیں اور یہ حکم اگرچہ سخت دشوار تھا مگر اللہ کی طرف سے ہدایت یافتہ لوگوں کے لیے (اس میں کوئی دشواری نہیں) اور اللہ تمہارے ایمان کو ضائع نہیں کرے گا، اللہ تو لوگوں کے حق میں یقینا بڑا مہربان، رحیم ہے۔

قَدۡ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجۡہِکَ فِی السَّمَآءِ ۚ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبۡلَۃً تَرۡضٰہَا ۪ فَوَلِّ وَجۡہَکَ شَطۡرَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ ؕ وَ حَیۡثُ مَا کُنۡتُمۡ فَوَلُّوۡا وُجُوۡہَکُمۡ شَطۡرَہٗ ؕ وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ لَیَعۡلَمُوۡنَ اَنَّہُ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّہِمۡ ؕ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۴۴﴾

۱۴۴۔ ہم آپ کو بار بار آسمان کی طرف منہ کرتے دیکھ رہے ہیں، سو اب ہم آپ کو اسی قبلے کی طرف پھیر دیتے ہیں جسے آپ پسند کرتے ہیں، اب آپ اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف کریں اور تم لوگ جہاں کہیں بھی ہو اس کی طرف رخ کرو اور اہل کتاب اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ یہ ان کے رب کی طرف سے حق پر مبنی (فیصلہ)ہے اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں اللہ اس سے غافل نہیں ہے۔

وَ لَئِنۡ اَتَیۡتَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ بِکُلِّ اٰیَۃٍ مَّا تَبِعُوۡا قِبۡلَتَکَ ۚ وَ مَاۤ اَنۡتَ بِتَابِعٍ قِبۡلَتَہُمۡ ۚ وَ مَا بَعۡضُہُمۡ بِتَابِعٍ قِبۡلَۃَ بَعۡضٍ ؕ وَ لَئِنِ اتَّبَعۡتَ اَہۡوَآءَہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَکَ مِنَ الۡعِلۡمِ ۙ اِنَّکَ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیۡنَ﴿۱۴۵﴾ۘ

۱۴۵۔ اور اگر آپ اہل کتاب کے سامنے ہر قسم کی نشانی لے آئیں پھر بھی یہ لوگ آپ کے قبلے کی پیروی نہیں کریں گے اور نہ آپ ان کے قبلے کی اتباع کرنے والے ہیں اور نہ ان میں سے کوئی دوسرے کے قبلے کی اتباع کرنے پر تیار ہے اور (پھر بات یہ ہے کہ)آپ کے پاس جو علم آ چکا ہے اس کے بعد بھی اگر آپ لوگوں کی خواہشات کی پیروی کرنے لگیں تو آپ زیادتی کرنے والوں میں ہوں گے۔

143 تا 145۔ یہ درحقیقت ایک گروہ کی امامت کا اعلان ہے جو رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور لوگوں کے درمیان امت وسط کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیونکہ: ٭آیت کا تسلسل امامت کی منتقلی کے بارے میں ہے۔ ٭ امت وسط کو لوگوں کے اعمال کا شاہد بنایا گیا ہے، لہٰذا گواہ کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کے اعمال کے ساتھ اس کا ایک تعلق موجود ہو، جس طرح اعضاء و جوارح قیامت کے دن انسانی اعمال پر گواہی دیں گے۔ ٭ قیامت کے دن حساب و مواخذہ اور گواہی، حقائق پر مبنی ہو گی، دنیا کی طرح ظاہری نہ ہو گی۔ پس نتیجہ یہ نکلا کہ آخرت میں جب لوگوں سے حساب لیا جائے گا تو رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس امت وسط پر گواہی دیں گے۔ اس کے بعد رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قائم مقام ہونے کی حیثیت سے دیگر لوگوں پر امت وسط گواہی دے گی۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے: و لا یکون الشھداء علی الناس الا الائمۃ و الرسل ۔ لوگوں پر گواہ صرف ائمہ اور انبیاء ہو سکتے ہیں۔ تحویل قبلہ سے یہ دیکھنا بھی مقصود تھا کہ کون قومی تعصبات اور گروہی ترجیحات کے پرستار ہیں، کون قبلے کو آبائی اور قبائلی اعتبار سے قبول کرتے ہیں اور کون ہیں جو قبلے کو الٰہی سمجھ کر مان لیتے ہیں۔

وَمَا كَانَ اللہُ لِـيُضِيْعَ... : اس سوال کا جواب ہے کہ قبلہ اگر کعبہ ہے تو بیت المقدس کی طرف پڑھی جانے والی نمازوں کا کیا ہو گا؟ اس آیت میں نماز کو ایمان سے تعبیر کیا گیا ہے۔ چنانچہ جب حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایمان کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا : اَلاِیْمَانُ عَمَلٌ کُلُّہُ ۔(الکافی 2:33) ایمان پورے عمل سے عبارت ہے۔ پھر آپ علیہ السلام نے اس آیت کی تلاوت فرمائی۔

رسولِ کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قبلہ کی تبدیلی کا انتظار تھا۔ اہلِ کتاب بھی جانتے تھے کہ آنے والے رسول دو قبلوں کی طرف نماز پڑھیں گے اور امامت کی منتقلی کا لازمہ بھی یہی ہے کہ قبلہ تبدیل کر دیا جائے۔ ادھر یہودیوں کا یہ طعنہ کہ تم ہمارے قبلے کی طرف رخ کرتے ہو، گراں گزر رہا تھا۔ چنانچہ اللہ نے اپنے حبیب کو ان کی پسند کا قبلہ عنایت فرمایا۔

اَلَّذِیۡنَ اٰتَیۡنٰہُمُ الۡکِتٰبَ یَعۡرِفُوۡنَہٗ کَمَا یَعۡرِفُوۡنَ اَبۡنَآءَہُمۡ ؕ وَ اِنَّ فَرِیۡقًا مِّنۡہُمۡ لَیَکۡتُمُوۡنَ الۡحَقَّ وَ ہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ﴿۱۴۶﴾ؔ

۱۴۶۔ جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس (رسول)کو اسی طرح پہچانتے ہیں جیسے وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں اور ان میں سے ایک گروہ جان بوجھ کر حق کو چھپا رہا ہے۔

146۔ اہل کتاب اپنی کتب میں رسول آخر الزمان صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تمام اوصاف پڑھ چکے تھے۔ چنانچہ اہل کتاب کا پڑھا لکھا شخص پہلی نظر میں ہی آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پہچان لیتا تھا، جس طرح اپنی اولاد کو پہچاننے میں انسان کو دشواری نہیں ہوتی۔ کیونکہ اولاد کی پہچان کا تعلق صرف مشاہدات سے نہیں ہوتا بلکہ قلبی تعلق اور محبت اس پہچان کے اہم عنصر ہیں جن کی وجہ سے باپ دور سے اپنی اولاد کی خوشبو سونگھ لیتا ہے اور بیٹے کی قمیص سے چشم پدر میں روشنی لوٹ آتی ہے۔

اَلۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکَ فَلَا تَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡمُمۡتَرِیۡنَ﴿۱۴۷﴾٪

۱۴۷۔ حق صرف وہی ہے جو آپ کے رب کی طرف سے ہو، لہٰذا آپ شک و تردد کرنے والوں میں سے ہرگز نہ ہوں۔

وَ لِکُلٍّ وِّجۡہَۃٌ ہُوَ مُوَلِّیۡہَا فَاسۡتَبِقُوا الۡخَیۡرٰتِ ؕ؃ اَیۡنَ مَا تَکُوۡنُوۡا یَاۡتِ بِکُمُ اللّٰہُ جَمِیۡعًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۱۴۸﴾

۱۴۸۔ اور ہر ایک کے لیے ایک سمت ہے جس کی طرف وہ رخ کرتا ہے، پس تم لوگ نیکیوں کی طرف سبقت کرو،تم جہاں کہیں بھی ہوں گے اللہ (ایک دن) تم سب کو حاضر کرے گا، یقینا اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

148۔ شیعہ امامیہ کی متعدد روایات میں وارد ہوا ہے کہ اَيْنَ مَا تَكُوْنُوْا يَاْتِ بِكُمُ اللہُ جَمِيْعًا سے مراد حضرت امام مہدی علیہ السلام کے انصار ہیں۔ علامہ طباطبائی فرماتے ہیں: اِنَّہٗ مِنَ التَّطْبِیْقِ وَ الْجَرْی ۔ یہ آیت امام مہدی علیہ السلام کے انصار پر بھی قابل تطبیق ہے۔ مراد اور تطبیق میں نمایاں فرق ہوتا ہے اور ہم نے مقدمے میں تطبیق کی وضاحت بیان کی ہے۔

وَ مِنۡ حَیۡثُ خَرَجۡتَ فَوَلِّ وَجۡہَکَ شَطۡرَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ ؕ وَ اِنَّہٗ لَلۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۴۹﴾

۱۴۹۔ اور آپ جہاں کہیں بھی نکلیں اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف موڑیں، کیونکہ یہ آپ کے رب کا برحق فیصلہ ہے اور اللہ تم لوگوں کے اعمال سے غافل نہیں ہے۔

وَ مِنۡ حَیۡثُ خَرَجۡتَ فَوَلِّ وَجۡہَکَ شَطۡرَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ ؕ وَ حَیۡثُ مَا کُنۡتُمۡ فَوَلُّوۡا وُجُوۡہَکُمۡ شَطۡرَہٗ ۙ لِئَلَّا یَکُوۡنَ لِلنَّاسِ عَلَیۡکُمۡ حُجَّۃٌ ٭ۙ اِلَّا الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا مِنۡہُمۡ ٭ فَلَا تَخۡشَوۡہُمۡ وَ اخۡشَوۡنِیۡ ٭ وَ لِاُتِمَّ نِعۡمَتِیۡ عَلَیۡکُمۡ وَ لَعَلَّکُمۡ تَہۡتَدُوۡنَ﴿۱۵۰﴾ۙۛ

۱۵۰۔اور آپ جہاں کہیں سے بھی نکلیں اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف موڑیں اور تم لوگ جہاں کہیں بھی ہو اپنا رخ اسی (کعبے) کی طرف کرو تاکہ ان میں سے ظالموں کے علاوہ لوگوں کو تمہارے خلاف کوئی حجت نہ ملے، لہٰذا تم ان سے نہیں صرف مجھ ہی سے ڈرو تاکہ میں تم پر اپنی نعمتیں پوری کروں اور شاید تم ہدایت پاؤ۔