وَ اذۡکُرۡ فِی الۡکِتٰبِ مُوۡسٰۤی ۫ اِنَّہٗ کَانَ مُخۡلَصًا وَّ کَانَ رَسُوۡلًا نَّبِیًّا﴿۵۱﴾

۵۱۔ اور اس کتاب میں موسیٰ کا ذکر کیجیے، وہ یقینا برگزیدہ نبی مرسل تھے۔

51۔ مُخۡلَصًا : خالص برگزیدہ۔ اس کے وجود، کردار، افکار میں غیر اللہ کے لیے کوئی جگہ نہ ہو۔ وہ خالص اللہ کے لیے زندہ رہتے ہیں اور اللہ کے لیے کام کرتے ہیں۔

وَ نَادَیۡنٰہُ مِنۡ جَانِبِ الطُّوۡرِ الۡاَیۡمَنِ وَ قَرَّبۡنٰہُ نَجِیًّا﴿۵۲﴾

۵۲۔اور ہم نے انہیں طور کی داہنی جانب سے پکارا اور رازدار بنانے کے لیے انہیں قربت عطا کی۔

وَ وَہَبۡنَا لَہٗ مِنۡ رَّحۡمَتِنَاۤ اَخَاہُ ہٰرُوۡنَ نَبِیًّا﴿۵۳﴾

۵۳۔ اور ان کے بھائی ہارون کو ہم نے اپنی رحمت سے نبی بنا کر (بطور معاون) انہیں عطا کیا۔

وَ اذۡکُرۡ فِی الۡکِتٰبِ اِسۡمٰعِیۡلَ ۫ اِنَّہٗ کَانَ صَادِقَ الۡوَعۡدِ وَ کَانَ رَسُوۡلًا نَّبِیًّا ﴿ۚ۵۴﴾

۵۴۔ اور اس کتاب میں اسماعیل کا (بھی) ذکر کیجیے، وہ یقینا وعدے کے سچے اور نبی مرسل تھے۔

54۔ یہ اسماعیل بن ابراہیم علیہما السلام کے علاوہ ہیں۔ یہ اسماعیل بن حزقیل علیہما السلام ہیں۔ ان کے بارے میں تفسیر البرہان میں اس آیت کے ذیل میں متعدد روایات ہیں۔

وَ کَانَ یَاۡمُرُ اَہۡلَہٗ بِالصَّلٰوۃِ وَ الزَّکٰوۃِ ۪ وَ کَانَ عِنۡدَ رَبِّہٖ مَرۡضِیًّا﴿۵۵﴾

۵۵۔ وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے اور وہ اپنے رب کے نزدیک پسندیدہ تھے۔

55۔ اپنے اہل خانہ کو نماز و زکوٰۃ کا حکم دینا اخلاق انبیاء میں سے ہے۔ چنانچہ دوسری جگہ فرمایا: قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَہْلِيْكُمْ نَارًا (تحریم: 6) اپنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو آتش سے بچاؤ۔

وَ اذۡکُرۡ فِی الۡکِتٰبِ اِدۡرِیۡسَ ۫ اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیۡقًا نَّبِیًّا﴿٭ۙ۵۶﴾

۵۶۔ اور اس کتاب میں ادریس کا (بھی) ذکر کیجیے، وہ یقینا راستگو نبی تھے۔

56۔ حضرت ادریس، حضرت نوح علیہما السلام کے اجداد میں سے تھے اور بنی اسرائیل کے انبیاء میں سے نہ تھے۔ اس لیے اسرائیلی تاریخ میں ان کا ذکر نہیں ملتا۔ ان کا نسب اس طرح بیان ہوا ہے: ادریس بن یارد بن مہلائیل بن قینان بن انوش بن شیث۔ کہتے ہیں ان کا عبرانی نام خنوخ ہے۔ یونانی ان کو ارمیس کہتے ہیں۔ مصری ان کو ہرمس کہتے ہیں۔ قرآن نے ان کو ادریس کے نام سے یاد کیا ہے۔ توریت میں قابیل کے فرزند حنوک کا ذکر آتا ہے۔ ممکن ہے وہ یہی حضرت ادریس علیہ السلام ہوں۔ کیونکہ اس میں یہ ذکر بھی ہے کہ ان کو خدا نے اٹھا لیا۔

وَّ رَفَعۡنٰہُ مَکَانًا عَلِیًّا﴿۵۷﴾

۵۷۔ اور ہم نے انہیں اعلیٰ مقام پر اٹھایا۔

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ مِنۡ ذُرِّیَّۃِ اٰدَمَ ٭ وَ مِمَّنۡ حَمَلۡنَا مَعَ نُوۡحٍ ۫ وَّ مِنۡ ذُرِّیَّۃِ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ اِسۡرَآءِیۡلَ ۫ وَ مِمَّنۡ ہَدَیۡنَا وَ اجۡتَبَیۡنَا ؕ اِذَا تُتۡلٰی عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتُ الرَّحۡمٰنِ خَرُّوۡا سُجَّدًا وَّ بُکِیًّا ﴿ٛ۵۸﴾۩

۵۸۔ یہ وہ انبیاء ہیں جن پر اللہ نے انعام فرمایا جو اولاد آدم میں سے ہیں اور ان میں سے جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ کشتی میں اٹھایا اور ابراہیم و اسرائیل کی اولاد میں سے اور ان لوگوں میں سے جنہیں ہم نے ہدایت دی اور برگزیدہ کیا، جب ان پر رحمن کی آیات کی تلاوت کی جاتی تو وہ روتے ہوئے سجدے میں گر پڑتے۔

58۔ تاریخ انسانیت کی انسان ساز ہستیوں کا ذکر تین سلسلوں میں آیا: آدم، نو ح اور ابراہیم علیہم السلام۔ یہ وہ ہستیاں ہیں جن پر اللہ نے اپنی نعمتیں پوری کر دیں اور پوری انسانیت کے لیے ہدایت کی روشنی کا منبع یہی تھے۔

فَخَلَفَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ خَلۡفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوۃَ وَ اتَّبَعُوا الشَّہَوٰتِ فَسَوۡفَ یَلۡقَوۡنَ غَیًّا ﴿ۙ۵۹﴾

۵۹۔ پھر ان کے بعد ایسے ناخلف ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے نماز کو ضائع کیا اور خواہشات کے پیچھے چل پڑے پس وہ عنقریب ہلاکت سے دوچار ہوں گے۔

59۔انبیاء، صلحاء اور اوصیاء سب کو ناخلف لوگوں سے واسطہ پڑا ہے۔ جنہوں نے ان کی آنکھ بند ہوتے ہی بگاڑ شروع کر دیا اور اس سلسلے کا اولین زینہ نماز کا ضیاع ہے جو مؤمن کا اپنے رب کے ساتھ تعلق قائم رکھنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ جس کے ضیاع کے بعد اس امت کا زوال شروع ہو جاتا ہے۔

اِلَّا مَنۡ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَاُولٰٓئِکَ یَدۡخُلُوۡنَ الۡجَنَّۃَ وَ لَا یُظۡلَمُوۡنَ شَیۡئًا ﴿ۙ۶۰﴾

۶۰۔ مگر جو توبہ کریں، ایمان لائیں اور نیک اعمال بجا لائیں تو وہ جنت میں داخل ہوں گے اور ان پر کچھ بھی ظلم نہ ہو گا۔

60۔ ان انحرافیوں پر رحمت خدا کا دروازہ بند نہیں ہو گا اگر یہ لوگ انحراف کے بعد تَابَ ، اللہ کی طرف واپس آ جائیں۔ چونکہ یہ لوگ انحراف کی وجہ سے اللہ سے منہ موڑ چکے تھے۔ ٭

اٰمَنَ اپنے ایمان کی نئے سرے سے تجدید کریں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان انحرافیوں کا ایمان بھی مخدوش ہو گیا تھا۔