وَ اِذۡ قُلۡنَا لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اسۡجُدُوۡا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوۡۤا اِلَّاۤ اِبۡلِیۡسَ ؕ قَالَ ءَاَسۡجُدُ لِمَنۡ خَلَقۡتَ طِیۡنًا ﴿ۚ۶۱﴾

۶۱۔ اور (یاد کریں) جب ہم نے فرشتوں سے کہا:آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، اس نے کہا: کیا میں اسے سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے ؟

قَالَ اَرَءَیۡتَکَ ہٰذَا الَّذِیۡ کَرَّمۡتَ عَلَیَّ ۫ لَئِنۡ اَخَّرۡتَنِ اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ لَاَحۡتَنِکَنَّ ذُرِّیَّتَہٗۤ اِلَّا قَلِیۡلًا﴿۶۲﴾

۶۲۔ پھر کہا: مجھے بتاؤ! یہی ہے وہ جسے تو نے مجھ پر فضیلت دی ہے؟ اگر تو نے مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے دی تو قلیل تعداد کے سوا میں اس کی سب اولاد کی جڑیں ضرور کاٹ دوں گا۔

قَالَ اذۡہَبۡ فَمَنۡ تَبِعَکَ مِنۡہُمۡ فَاِنَّ جَہَنَّمَ جَزَآؤُکُمۡ جَزَآءً مَّوۡفُوۡرًا﴿۶۳﴾

۶۳۔ (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا : دور ہو جا! ان میں سے جو کوئی تیری پیروی کرے گا تو تم سب کے لیے جہنم کی سزا ہی یقینا مکمل سزا ہے۔

وَ اسۡتَفۡزِزۡ مَنِ اسۡتَطَعۡتَ مِنۡہُمۡ بِصَوۡتِکَ وَ اَجۡلِبۡ عَلَیۡہِمۡ بِخَیۡلِکَ وَ رَجِلِکَ وَ شَارِکۡہُمۡ فِی الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَوۡلَادِ وَ عِدۡہُمۡ ؕ وَ مَا یَعِدُہُمُ الشَّیۡطٰنُ اِلَّا غُرُوۡرًا﴿۶۴﴾

۶۴۔ اور ان میں سے تو جس جس کو اپنی آواز سے لغزش سے دوچار کر سکتا ہے کر اور اپنے سواروں اور پیادوں کے ساتھ ان پر چڑھائی کر دے اور ان کے اموال اور اولاد میں ان کا شریک بن جا اور انہیں (جھوٹے) وعدوں میں لگا رکھ اور شیطان سوائے دھوکے کے انہیں اور کوئی وعدہ نہیں دیتا۔

64۔ ایک جنگ ایک معرکہ جس میں ایک طرف شیطان اپنی سوار اور پیادہ فوج اور ساز و آواز کے ساتھ اولاد آدم پر حملہ آور ہے۔ اس حملے میں شیطان درج ذیل وسائل حرب بروئے کار لاتا ہے: 1۔ آواز: حق کے مقابلے میں، ہر اس آواز کے ذریعے جس سے انسانی عقل مغلوب ہو جاتی ہے، ہر اٹھنے والی آواز کو جاذب، پرکشش بنانا اور اس پر آج کے ذرائع ابلاغ شاہد ہیں کہ سمعی ذرائع سے شیاطین کس قدر گمراہ کن افکار پھلاتے ہیں۔ 2۔ طاقت کا استعمال: وہ اپنے کارندوں کے ذریعے لوگوں کے عقل و حواس پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ بالکل ایک گرم معرکہ کی طرح جس میں دشمن اپنے سوار اور پیدل فوج دونوں کو جھونک دیتا ہے۔ 3۔ اقتصادی حربے: اصولی طور پر انسان اپنے فائدے کے لیے مال کماتا ہے اور اولاد پالتا ہے، مگر جب انسان شیطان کے حملے کی زد میں آتا ہے تو اس سے شیطان زیادہ فائدہ اٹھاتا ہے۔ چنانچہ آج کے شیطانی معاشروں میں مال کا اکثر حصہ غیر انسانی امور پر خرچ ہوتا ہے۔

4۔ نفسیاتی حربے: دلفریب وعدوں کے ذریعے انسان کو فریب دینا شیاطین کا خطرناک ترین ہتھیار ہے۔ وہ انسان سے دولت مندی جاہ و ریاست اور بالا دستی کے پرکشش وعدے کرتے ہیں اور انسان سے احساس گناہ سلب کر کے گناہ کو ناچیز بنا کر پیش کرتے ہیں۔ کبھی گناہ کے بعد توبہ کا فریب دے کر گناہ کے ارتکاب پر، کبھی غلط توجیہات سے گناہ کا ارتکاب کرنے پر اکساتے ہیں۔

اِنَّ عِبَادِیۡ لَیۡسَ لَکَ عَلَیۡہِمۡ سُلۡطٰنٌ ؕ وَ کَفٰی بِرَبِّکَ وَکِیۡلًا ﴿۶۵﴾

۶۵۔ میرے بندوں پر تیری کوئی بالادستی نہیں ہے اور آپ کا رب ہی ضمانت کے لیے کافی ہے۔

65۔ یعنی شیاطین کے حربوں کے مقابلے میں مومن کے پاس عبودیت و بندگی کا اسلحہ موجود ہوتا ہے۔ یعنی جس قدر انسان اللہ کے نزدیک ہوتا ہے شیطان سے دور ہوتا ہے۔ اللہ کے نزدیک ہونے کا راستہ اس کی بندگی ہے۔

رَبُّکُمُ الَّذِیۡ یُزۡجِیۡ لَکُمُ الۡفُلۡکَ فِی الۡبَحۡرِ لِتَبۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِہٖ ؕ اِنَّہٗ کَانَ بِکُمۡ رَحِیۡمًا﴿۶۶﴾

۶۶۔ تمہارا رب وہ ہے جو سمندر میں تمہارے لیے کشتی چلاتا ہے تاکہ تم اس کا فضل (روزی) تلاش کرو، اللہ تم پر یقینا نہایت مہربان ہے۔

وَ اِذَا مَسَّکُمُ الضُّرُّ فِی الۡبَحۡرِ ضَلَّ مَنۡ تَدۡعُوۡنَ اِلَّاۤ اِیَّاہُ ۚ فَلَمَّا نَجّٰىکُمۡ اِلَی الۡبَرِّ اَعۡرَضۡتُمۡ ؕ وَ کَانَ الۡاِنۡسَانُ کَفُوۡرًا﴿۶۷﴾

۶۷۔ اور جب سمندر میں تمہیں کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو سوائے اللہ کے جن جن کو تم پکارتے تھے وہ سب ناپید ہو جاتے ہیں پھر جب اللہ تمہیں خشکی کی طرف نجات دیتا ہے تو تم منہ موڑنے لگتے ہو اور انسان بڑا ہی ناشکرا ثابت ہوا ہے ۔

اَفَاَمِنۡتُمۡ اَنۡ یَّخۡسِفَ بِکُمۡ جَانِبَ الۡبَرِّ اَوۡ یُرۡسِلَ عَلَیۡکُمۡ حَاصِبًا ثُمَّ لَا تَجِدُوۡا لَکُمۡ وَکِیۡلًا ﴿ۙ۶۸﴾

۶۸۔تو کیا تم اس بات سے خائف نہیں ہو کہ اللہ تمہیں خشکی کی طرف زمین میں دھنسا دے یا تم پر پتھر برسانے والی آندھی چلا دے، پھر تم اپنے لیے کوئی ضامن نہیں پاؤ گے۔

اَمۡ اَمِنۡتُمۡ اَنۡ یُّعِیۡدَکُمۡ فِیۡہِ تَارَۃً اُخۡرٰی فَیُرۡسِلَ عَلَیۡکُمۡ قَاصِفًا مِّنَ الرِّیۡحِ فَیُغۡرِقَکُمۡ بِمَا کَفَرۡتُمۡ ۙ ثُمَّ لَا تَجِدُوۡا لَکُمۡ عَلَیۡنَا بِہٖ تَبِیۡعًا﴿۶۹﴾

۶۹۔ آیا تمہیں اس بات کا خوف نہیں کہ اللہ تمہیں دوبارہ سمندر کی طرف لے جائے پھر تم پر تیز ہوا چلا دے پھر تمہارے کفر کی پاداش میں تمہیں غرق کر دے؟ پھر تمہیں اپنے لیے اس بات پر ہمارا پیچھا کرنے والا کوئی نہ ملے گا۔

68 ۔ 69 انسان کاملاً اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے۔ دریا میں ہو یا خشکی میں، اس کے لیے اللہ کی گرفت سے بچ نکلنا ممکن نہیں ہے۔ خشکی میں اگر وہ زمین میں دھنس جائے اور آندھی میں گھر جائے اور سمندر کی لہروں میں پھنس جائے تو اللہ کے علاوہ اسے بچانے والا کوئی نہیں ہے، کیونکہ ان تمام چیزوں پر اللہ کی حکومت ہے اور اللہ کی حکومت سے فرار ممکن نہیں ہے۔

وَ لَقَدۡ کَرَّمۡنَا بَنِیۡۤ اٰدَمَ وَ حَمَلۡنٰہُمۡ فِی الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ وَ رَزَقۡنٰہُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلۡنٰہُمۡ عَلٰی کَثِیۡرٍ مِّمَّنۡ خَلَقۡنَا تَفۡضِیۡلًا﴿٪۷۰﴾

۷۰۔ اور بتحقیق ہم نے اولاد آدم کو عزت و تکریم سے نوازا اور ہم نے انہیں خشکی اور سمندر میں سواری دی اور انہیں پاکیزہ چیزوں سے روزی عطا کی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر انہیں بڑی فضیلت دی۔

70۔ انسان کو عزت و تکریم سے اس طرح سے نوازا گیا ہے کہ اللہ نے کائنات کی ہر چیز کو انسان کے لیے مسخر کیا ہے، جبکہ انسان کو کسی اور مخلوق کے لیے مسخر نہیں کیا نیز انسان میں ارتقائی صلاحیت ودیعت فرمائی، دوسری مخلوقات میں نہیں۔ چنانچہ جانور آج ایٹمی دور میں بھی اسی طرح چرتے ہیں جس طرح وہ تخلیق کے ابتدائی دور میں چرتے تھے۔